ملکی قوانین اور پرسنل لا کا مسئلہ

موجودہ آئین میں بنیادی حقوق کے ترمیمی قانون کے ذریعے اضافہ شدہ پرنسپلز آف پالیسیز کے تحت جہاں یہ درج ہے کہ ملک کے قوانین اسلام کے خلاف نہیں ہوں گے وہاں یہ لکھا گیا ہے کہ اسلام کی تعبیر و تشریح ہر فرقہ اپنے عقائد کے مطابق خود کرے گا۔ کیا آپ بھی اس کے قائل ہیں ؟
جواب

۱۹۵۱ئ میں پاکستان کے علما کا جو اجتماع اسلامی ریاست کے بنیادی اصول متعین کرنے کے لیے ہوا تھا، اس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ پرسنل لا کی حد تک تو ہر فرقہ اپنے قانون پر کاربند رہے گا۔ لیکن قانون ملکی (law of the land)وہ ہوگا جسے ملک کے عوام اساس مانتے ہیں — اسی چیز کو ۱۹۵۶ئ کے آئین میں اختیار کیا گیا تھا اور اسی چیز کی نقل موجودہ آئین میں بھی ہے۔ لیکن اگر اس میں پرسنل لا اور لا آن دی لینڈ میں فرق نہیں کیا گیا تو یہ غلط ہے۔ صدیوں سے جمہوری ملکوں میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ملک کا عام قانون تو وہی ہوگا جسے ملک کی اکثریت مانتی ہے۔لیکن کم تعداد والے گروہوں کے لیے ان کا پرسنل لا موجود رہتا ہے۔ یہی اصول ہمیں اپنے ہاں بھی ملحوظ رکھنا ہوگا— البتہ یہ بات واضح رہے کہ ملک کے قانون فوج داری میں ہر فرقے کے الگ الگ پرسنل لا پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ یہاں تو لا آف دی لینڈ کی عمل داری ہوگی جو ملک کی اکثریت کا قانون ہوگا۔ البتہ شادی بیاہ اور ایسے ہی دوسرے تمام معاملات میں ہر گروہ کو اپنے عقائد کے مطابق فیصلے کرنے اور معاملات چلانے کا اختیار ہوگا۔