ملکی نظم ونسق میں ذِمیوں کی شرکت

کیا ذمی ملک کے نظم و نسق میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں ؟کیا پولیس ،فوج اور قانون نافذ کرنے والی جماعت میں ہندوئوں کاحصہ ہوگا ؟اگر نہیں تو کیا ہندوئوں کی اکثریت والے صوبوں میں آپ مسلمانوں کے لیے وہ پوزیشن قبول کرنے کو تیار ہوں گے جو کہ آپ حکومتِ الٰہیہ میں ہندوئوں کو دیں گے؟
جواب

آپ کا یہ سوال کہ آیا ذمی ملک کے نظم ونسق میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً پولیس ،فوج اور قانون نافذ کرنے والی جماعت میں ہندوئوں کا حصہ ہوگا یا نہیں ؟اگر نہیں تو کیا ہندوئوں کی اکثریت والے صوبوں میں آپ مسلمانوں کے لیے وہ پوزیشن منظور کریں گے جو آپ ہندوئوں کو حکومتِ الٰہیہ میں دیں گے؟ یہ سوال میرے نزدیک دو غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ایک یہ کہ اُصولی غیر قومی حکومت (Ideological Non-National State) کی صحیح حیثیت آپ نے اس میں ملحوظ نہیں رکھی ہے۔دوسرے یہ کہ کاروباری لین دین کی ذہنیت اس میں جھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
جیسا کہ میں ] سوال نمبر۵۴۷ [ تصریح کرچکا ہوں ،اُصولی حکومت کو چلانے اور اس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری صرف وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جو اس اُصول پر یقین رکھتے ہوں ۔وہی اس کی روح کو سمجھ سکتے ہیں ،انھی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ پورے خلوص کے ساتھ اپنا دین وایمان سمجھتے ہوئے اس ’’ریاست‘‘ کے کام کو چلائیں گے، اور انھی سے یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس ریاست کی حمایت کے لیے اگر ضرورت پڑے تو میدانِ جنگ میں قربانی دے سکیں گے۔دوسرے لوگ جو اس اُصول پر ایمان نہیں رکھتے،اگر حکومت میں شریک کیے بھی جائیں گے تو نہ وہ اس کی اُصولی اور اخلاقی روح کو سمجھ سکیں گے، نہ اس روح کے مطابق کام کرسکیں گے اور نہ ان کے اندران اصولوں کے لیے اخلاص ہوگاجن پر اس حکومت کی عمارت قائم ہوگی۔سول محکموں میں اگر وہ کام کریں گے تو ان کے اندر ملازمانہ ذہنیت کارفرما ہوگی اور محض روزگار کی خاطر وہ اپنا وقت اور اپنی قابلیتیں بیچیں گے اور اگر وہ فوج میں جائیں گے تو ان کی حیثیت کرایے کے سپاہیوں (merecenaries) جیسی ہوگی اور وہ ان اخلاقی مطالبات کو پورا نہ کرسکیں گے جو اسلامی حکومت اپنے مجاہدوں سے کرتی ہے۔اس لیے اُصولاًاور اخلاقی اعتبار سے اسلامی حکومت کی پوزیشن اس معاملے میں یہ ہے کہ وہ فوج میں اہلِ ذمہ سے کوئی خدمت نہیں لیتی بلکہ اس کے برعکس فوجی حفاظت کا پورا پورا بار مسلمانوں پر ڈا ل دیتی ہے اور اہلِ ذمہ سے صرف ایک دفاعی ٹیکس لینے پر اکتفا کرتی ہے۔لیکن یہ ٹیکس اورفوجی خدمت دونوں بیک وقت اہلِ ذمہ سے نہیں لیے جاسکتے ۔اگر اہلِ ذمہ بطور خود فوجی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں تو وہ ان سے قبول کرلی جائے گی اور اس صورت میں دفاعی ٹیکس ان سے نہ لیا جائے گا۔رہے سول محکمے، تو ان میں سے کلیدی مناصب(key positions) اور وہ عہدے جو پالیسی کے تعین وتحفظ سے تعلق رکھتے ہیں بہرحال اہل ذمّہ کو نہیں دیے جاسکتے۔البتہ کارکنوں کی حیثیت سے ذمیوں کی خدمات حاصل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اسی طرح جو اسمبلی شُوریٰ کے لیے منتخب کی جائے گی ،اس میں بھی اہلِ ذمہ کو رکنیت یا راے دہندگی کا حق نہیں ملے گا۔ البتہ ذمیوں کی الگ کونسلیں بنا دی جائیں گی جو ان کی تہذیبی خود اختیاری کے انتظام کی دیکھ بھال بھی کریں گی اور اس کے علاوہ ملکی نظم ونسق کے متعلق اپنی خواہشات،اپنی ضروریات اور شکایات اور اپنی تجاویز کا اظہار بھی کرسکیں گی، جن کا پورا پورا لحاظ اسلامی مجلسِ شُوریٰ (assembly) کرے گی۔
صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ حکومتِ ا لہٰیہ کسی قوم کا اجارہ نہیں ہے۔جو بھی اس کے اُصول کو تسلیم کرے ،وہ اس حکومت کو چلانے میں حصے دار ہوسکتا ہے۔خواہ وہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ۔لیکن جو اس کے اُصول کوتسلیم نہ کرے ،وہ خواہ مسلم زادہ ہی کیوں نہ ہو،حکومت کی محافظت (protection) سے فائدہ تو اُٹھا سکتا ہے لیکن اس کے چلانے میں حصہ دار نہیں ہوسکتا۔
آپ کا یہ سوال کہ ’’کیا ہندو اکثریت والے صوبوں میں مسلمانوں کی وہی پوزیشن قبول کرو گے جو حکومتِ الٰہیہ میں ہندوئوں کو دو گے؟‘‘ دراصل مسلم لیگ کے لیڈروں سے کیا جانا چاہیے تھا، کیوں کہ لین دین کی باتیں وہی کرسکتے ہیں ۔ہم سے آپ پوچھیں گے تو ہم تو اس کا بے لاگ اُصولی جواب دیں گے۔
جہاں حکومت قائم کرنے کے اختیارات ہندوئوں کو حاصل ہوں وہاں آپ اُصولاً دو ہی طرح کی حکومتیں قائم کرسکتے ہیں :
یاا یسی حکومت جو ہندو مذہب کی بنیاد پر قائم ہویا پھر ایسی حکومت جو وطنی قومیت کی بنیاد پر ہو۔
پہلی صورت میں آپ کے لیے یہ کوئی سوال نہیں ہونا چاہیے کہ جیسے حقوق حکومتِ الٰہیہ میں ہندوئوں کو ملیں گے ویسے ہی حقوق ہم’’رام راج‘‘ میں مسلمانوں کو دے دیں گے۔ بلکہ آپ کو اس معاملے میں اگر کوئی راہ نمائی ہندو مذہب میں ملتی ہے تو بے کم وکاست اسی پر عمل کریں ،قطع نظر اس سے کہ دوسرے کس طرح عمل کرتے ہیں ۔اگر آپ کا معاملہ ہمارے معاملے سے بہتر ہوگا تو اخلاق کے میدان میں آپ ہم پر فتح پالیں گے، اور بعید نہیں کہ ایک روز ہماری حکومتِ الٰہیہ آپ کے رام راج میں تبدیل ہوجائے۔اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا، تو ظاہر ہے کہ دیر یاسویر نتیجہ بھی برعکس نکل کر ہی رہے گا۔
رہی دوسری صورت کہ آپ کی حکومت وطنی قومیت کی بنیاد پر قائم ہو، تو اس صورت میں بھی آپ کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ یا تو جمہوری (democratic) اصول اختیار کریں اور مسلمانوں کو ان کی تعداد کے لحاظ سے حصہ دیں ، یا پھر صاف صاف کہہ دیں کہ یہ ہندو قوم کی حکومت ہے اور مسلمانوں کو اس میں ایک مغلوب قوم(subject nation) کی حیثیت سے رہنا ہوگا۔
ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت پر بھی آپ چاہیں مسلمانوں سے معاملہ کریں ۔ بہرحال آپ کے برتائو کو دیکھ کر اسلامی ریاست اُن اُصولوں میں ذرہ برابر بھی کوئی تغیر نہ کرے گی جو ذمّیوں سے معاملہ کرنے کے لیے قرآن وحدیث میں مقرر کردیے گئے ہیں ۔ آپ چاہیں تو اپنی قومی ریاست میں مسلمانوں کا قتلِ عام کردیں اور ایک مسلمان بچے تک کو زندہ نہ چھوڑیں ۔ اسلامی ریاست میں اس کا انتقام لینے کے لیے کسی ذمی کا بال تک بیکا نہ کیا جائے گا۔اس کے برعکس آپ کا جی چاہے تو ہندو ریاست میں صدر جمہوریہ اور وزیراعظم اور کمانڈر اِن چیف سب ہی کچھ مسلمان باشندوں کو بنا دیں ۔ بہرحال اس کے جوا ب میں کوئی ایک ذمّی بھی کسی ایسی پوزیشن پر مقرر نہیں کیا جائے گا جو اسلامی ریاست کی پالیسی کی شکل اور سمت معیّن کرنے میں دخل رکھتی ہو۔ (ترجمان القرآن ، جولائی،اکتوبر۱۹۴۴ء)