کہا جاتا ہے کہ عورت کسی اسلامی ریاست کی سربراہ نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ صحیح ہے تو مولانا مودودیؒ نے مادرِ ملت فاطمہ جناح کے بارے میں جو رائے اختیار کی اسے کیا سمجھا جائے؟
جواب
رسول اللہﷺ نے صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ ’’ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی، جس کی سربراہ کوئی عورت ہو۔‘‘ اس لیے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اس پر اس کی ذمے داری نہیں ڈالی جاسکتی۔۱؎
میرا خیال ہے کہ مولانا مودودیؒ نے فاطمہ جناح کے بارے میں جو فیصلہ کیا تھا وہ ایک اضطراری فیصلہ تھا۔ صدر ایوب خاں ڈکٹیٹر تھے۔ ملک کے تمام اختیارات ان کے ہاتھ میں تھے اور نظامِ حکومت میں تبدیلی کی جمہوری راہیں وہ بند کر دینا چاہتے تھے۔ یہ سراسر غیر اسلامی اور غیر جمہوری عمل تھا۔ اس سے نجات پانے، عوام کے جمہوری حقوق کو بحال کرنے اور ملک میں اسلامی نظام کی راہ ہموار کرنے کے لیے مولانا مودودیؒ نے فاطمہ جناح کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔ ملک کو سیاسی گرداب سے نکالنے کے لیے یہ ایک عارضی فیصلہ تھا۔ شریعت کا کوئی مستقل ضابطہ یا قانون نہ تھا۔