جواب
اس مضمون کا حوالہ آپ نے غلط دیا ہے۔اوّل تو اکتوبر،نومبر۱۹۵۵ء کا کوئی یک جائی نمبر شائع ہی نہیں ہوا تھا۔ دوسرے یہ مضمون نہ اکتوبر کے پرچے میں ہے،نہ نومبر کے پرچے میں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص سے آپ نے یہ اعتراض سن کر اپنی فہرست میں درج فرما لیا ہے،اسے خود صحیح حوالہ معلوم نہ ہوگا۔دراصل یہ مضمون رسائل ومسائل ] سوال نمبر ۲۱۰ [ پر درج ہے۔ وہاں اس شبہہ کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو نسخ کامسئلہ سن کر ایک عام آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔عام طورپر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جن آیات کا حکم منسوخ ہوچکا ہے،ان کی قرآن میں اب کیا ضرورت ہے؟کیوں نہ ان کی تلاوت بھی منسوخ ہوگئی؟ اس کو رفع کرنے کے لیے میں نے قرآن میں ان احکام کے باقی رہنے کی حکمت یہ بتائی ہے کہ اگر معاشرے میں کبھی ہم کو پھر ان حالات سے سابقہ پیش آجائے جن میں وہ احکام دیے گئے تھے تو ہم ان پر عمل کرسکتے ہیں ۔ مثلاً کسی ملک میں مسلمان اس طرح کے حالات سے دوچار ہوں جو مکی زندگی میں نبیﷺ اور آپ کے اصحاب کو پیش آئے تھے، تو مکی دور کی تعلیم صبر وتحمل پر عمل کیا جائے گا نہ کہ مدنی دور کی تعلیم جہاد وقتال پر، حالاں کہ بیش تر مفسرین نے احکام قتال سے مکی دور کی ان آیات کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اسی طرح اس حالت میں مسلمان ان بہت سے احکام وقوانین کی پابندی سے معاف رکھے جائیں گے جو مدنی دور میں نازل ہوئے اور جن پر عمل درآمد اسلامی حکومت کی موجودگی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ آپ کا یہ سوال کہ منسوخ شدہ احکام کو پھرسے مشروع کون سا شارع کرے گا، تنہا میری طرف راجع نہیں ہوتا بلکہ ان تمام علما کی طرف راجع ہوتا ہے جو ابھی چند سال پہلے تک انگریزی دور میں مکی آیات سے قومی طرز عمل کے لیے راہ نمائی حاصل کرتے تھے اور مدنی دور کے احکام جنگ اور حدود اﷲ کے اجرا کو ملتوی قرار دیتے تھے۔ ( ترجمان القرآن، مئی ۱۹۵۶ء)