مولانا مودودی رسائل ومسائل حصہ دوم میں ’جرابوں پرمسح‘ کے مسئلے میں تحقیق فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی امکانی حدتک یہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہ موزوں اورجرابوں پرمسح کے بارے میں فقہا کی عائد کردہ شرائط کا ماخذ کیا ہے، مگر سنت میں ایسی کوئی چیز نہ مل سکی۔ سنت سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے جرابوں اورجوتوں پرمسح کیاہے۔ بلکہ حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضورؐ نے صرف جوتوں پرمسح فرمایا ہے۔ اس بناپر ہر طرح کے جوتوں اورموزوں پرمسح کیاجاسکتا ہے خواہ وہ اونی جراب ہویا سوتی، چمڑے کا جوتا ہویاکرمچ کا یا کوئی کپڑا ہی ہوجو پائوں پر لپیٹ کرباندھ دیاگیا ہو۔‘‘
مولانا محترم کی رائے حدیث رسول پر قائم ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس پر عمل نہ کیاجائے۔ چناں چہ میں اسی بناپر سوتی، اونی اور نائلون وغیرہ کے موزوں پرحسب ضرورت مسح کرلیاکرتاہوں۔ لیکن بہت سے لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ پتلے موزوں اورہر طرح کے جوتوں پر مسح کرنا صحیح نہیں ہے، اس لیے مجھے شک پیداہوگیا ہے۔ رفع شک کے لیے آپ کو خط لکھ رہاہوں۔ آپ زندگی میں اظہار خیال کریں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اگر شک ہو تو وہ دور ہوجائے۔
جواب
ہر شخص اپنی تحقیق کے مطابق جواب دیتا ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک پتلے موزوں پر خواہ وہ سوتی ہوں یا اونی مسح کرنا جائز نہیں ہے۔اسی طرح میرے نزدیک ان جوتوں پربھی مسح صحیح نہیں ہےجن کو پہننے کے بعد ٹخنے اورظاہر قدم کے حصے کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ البتہ ایسے فوجی یا شکاری جوتوں پرمسح جائز ہے جو ٹخنوں سے اوپر پنڈلی کے ایک حصے کو بھی ڈھانک لیتے ہیں۔
رسائل ومسائل حصہ دوم میں جو دلائل دیے گئے ہیں ان سےمیری تشفی نہیں ہوئی اورجو نقطۂ نظر اختیار کیاگیا ہے اس سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔اس میں جو دلائل دیے گئے ہیں وہ یہ ہیں
(۱) جرابوں اور جوتوں پرمسح کے جوازکے لیے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی وہ حدیث پیش کی گئی ہے جس میں ذکر ہے کہ حضورﷺ نے وضو کیا او رمسح علی الجوربین والنعلین (اپنی جرابوں اور جوتوں پرمسح فرمایا) حوالہ دیاگیا ہے کہ یہ حدیث نسائی کے سواکتب سنن میں اور مسند احمد میں موجود ہے۔
(۲) ابودائود کے حوالے سے لکھاگیا ہے کہ حضرت علیؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، براء بن عازبؓ، انس بن مالکؓ، ابوامامہؓ، سہل بن سعدؓاور عمروبن حریثؓ نے جرابوں پر مسح کیاہے۔ نیز حضرت عمرؓاورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ فعل مروی ہے۔
(۳) صرف جوتوں پرمسح کے لیے لکھا گیا ہے کہ بیہقی نے عبداللہ بن عباسؓ اور انس بن مالکؓ سے اور طحاوی نے اوس بن ابی اوسؓ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضورؐ نے صرف جوتوں پرمسح فرمایا ہے۔ اس میں جرابوں کا ذکر نہیں ہے اور یہی عمل حضرت علیؓ سے بھی منقول ہے۔
(۴) لکھا گیا ہے کہ ان روایات میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ نبی ﷺ نے فقہا کی تجویز کردہ شرائط میں سے کوئی شرط بیان فرمائی ہو اور نہ یہی ذکر کسی جگہ ملتا ہے کہ جن جرابوں پرحضورؐ نے اور مذکورہ بالا صحابہ نے مسح فرمایا ہے وہ کس قسم کی تھیں ؟ اس لیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ فقہا کی عائد کردہ ان شرائط کا کوئی ماخذ نہیں ہے۔
راقم الحروف نے اس مسئلے پرجس انداز سے غورکیا ہے وہ یہ ہے
(الف) وضو میں دونوں پاوئوں کو ٹخنوں تک دھونا نص قرآنی سے ثابت ہے اور خفین پرمسح کی رخصت قرآن میں موجود نہیں ہے۔ تیمم کی رخصت اور خفین پرمسح کی رخصت میں یہ ایک بڑا فرق موجود ہے۔
(ب) وضو میں دونوں قدموں کو ٹخنوں تک دھونا صحیح ترین قولی وفعلی احادیث سے بھی ثابت ہے۔
(ج) صحیح ترین احادیث میں پائوں دھونے میں بے احتیاطی پرسخت وعید آئی ہے۔صحابہؓ کو تنبیہ کرنے کے لیے ایک بار آپ نے بآواز بلند فرمایا
ویل للاعقاب من الناس(جولوگ وضومیں ایڑیاں خشک رکھیں گے انھیں آگ کی سزاملے گی)۔ بخاری ومسلم ا ور حدیث کی تمام کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے۔
قرآن کی نص اوراعلیٰ درجے کی صحیح احادیث کے خلاف پائوں دھونے کے بجائے خفین پریا کسی دوسری چیز پر مسح کرنے کا عمل اسی وقت درست ہوگا جب اس کی رخصت اعلیٰ درجے کی صحیح احادیث سے ثابت ہو، ضعیف یا مختلف فیہ احادیث سے نہ رخصت ثابت ہوگی اور نہ ثابت شدہ عمل سے عدول کرنا درست ہوگا۔ یقین کو چھوڑکر احتمالات پرعمل صحیح نہیں ہے۔ اس مسلمہ اصول کو پیش نظر رکھ کر مسئلے کی تحقیق سے جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں
(۱) صحیح ترین احادیث سے وضو میں صرف خفین (چمڑے کے موزے یا ہلکے جوتے جن میں الگ سے ایڑی لگی ہوئی نہیں ہوتی) پر مسح کی رخصت ثابت ہے۔ خفین کے علاوہ جرابوں یا عام طورپر مستعمل ہونے والے پتلے موزوں پرمسح کی رخصت کسی ایک متفق علیہ حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی جس حدیث کا رسائل ومسائل حصہ دوم میں حوالہ دیاگیا ہے اس کو بہت سے ائمہ حدیث نے ضعیف قراردیا ہے۔ زمانہ حال کے محدثین میں بھی مثال کے طورپر مولانا انور شاہ کشمیری نے اس کی صحت تسلیم نہیں کی ہے بلکہ اس کو قطعی طورپر وہم قراردیا ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے جو صحیح اور متفق علیہ حدیث مروی ہے وہ صرف خفین پرمسح کی حدیث ہے۔ میں اس کا ایک ٹکڑا یہاں نقل کرتاہوں
ثم اھویت لانزع خفیہ فقال دعھما فانی ادخلتھما طاھریتین فمسح علیھما للشیخین وزاداحمد بعد طاھرتین ثم لم امش حافیابعد۔
(جمع الفوائد للامام محمد بن محمد بن سلیمان)
’’اور میں جھکا کہ آپؐ کے قدموں سے دونوں خف نکالوں توآپ نےفرمایاکہ ان دونوں کو چھوڑدو، اس لیے کہ میں نے ان کو اس حال میں پہنا تھا کہ دونوں قدم طاہر تھے۔ پھر آپ نے دونوں خف پرمسح فرمایا۔ یہاں تک بخاری ومسلم میں ہے۔ امام احمد کی روایت میں لفظ طاہرتین کےبعد اتنا اضافہ اور ہے کہ آپ نے فرمایا کہ خفین پہننے کےبعد میں ننگے پائوں نہیں چلا۔‘‘
اس حدیث سے تین باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ اس واقعہ کے وقت حضورؐ صرف خفین پہنے ہوئے تھے، قدم مبارک میں نعلین نہ تھے۔ دوسری یہ کہ خفین کو طہارت کی حالت میں پہننا چاہیے۔ تیسری یہ کہ دونوں خف ایسے تھے جن میں جوتوں کے بغیرچلاپھراجاسکتا تھا۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ خفین پہن کر انھیں میں چلتا پھرتارہاہوں، انھیں نکال کر ننگے پائوں نہیں چلاہوں۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کس طرح کے خفین پرمسح کرنا صحیح ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم خفین کو نعلین کی جگہ بھی استعمال فرماتے تھے۔
(۲)جورب کی تعیین میں بھی ائمہ حدیث ولغت کے درمیان اختلافات ہیں اور متعدد محدثین اور اہل لغت نے لکھا ہے کہ جو رب،خف ہی کی ایک قسم ہے-
قال الطیبی الجورب لفافۃ الرجل، وھو خف معروف من نحو الساق، قال الشوکانی فی شرح المنتقی الخف نعل من ادم یغطی الکعبین، والجرموق اکبر منہ یلبس فوقہ، والجورب اکبر منہ، وقال الشیخ الدھلوی فی اللمعات الجورب خف یلبس علی الخف الی الکعب للبردلصیانۃ الخف الاسفل من الدرن والغسالۃ۔ (عون المعبود شرح ابودائود ج۱)
’’ طیبی نے کہا جورب پائوں کالفافہ ہے اوروہ مشہورخف ہے جوقریباً پنڈلی تک ہوتاہے۔ شوکانی نے المنتقی کی شرح میں کہا ہے کہ خف چمڑےکاجوتاہے جو دونوں ٹخنوں کو ڈھانک لیتاہے۔ اور شیخ دہلوی نے لمعات میں کہا ہے کہ جو رب ایک خف ہے جو خف کے اوپر پہناجاتاہے ٹخنے تک، ٹھنڈک سے بچنے کے لیے اور نچلے خف کومیل کچیل اورمستعمل پانی سے بچانے کے لیے۔‘‘
اشعۃ اللمعات میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’جورب‘ ہی کو جرموق اور موق بھی کہتے ہیں اور جوہری ومطرزی نے لکھا ہےکہ موق چھوٹا خف ہوتاہے جو خف کےاوپر پہنا جاتاہے اور خرقی نے لکھا ہے کہ جرموق کشادہ خف ہوتاہے جو خف کے اوپر پہنا جاتاہے۔‘‘ یہ تمام ائمہ حدیث ولغت متفق ہیں کہ جو ر ب بھی چمڑے کاہوتاہے۔ محدث دہلوی نے اہل لغت کی جو تصریحات نقل کی ہیں ان سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جورب کی جو تعریف کی ہے اگر اسے تسلیم کرلیاجائے تو پھر اختلاف باقی نہیں رہتا اوراگرتسلیم نہ کیاجائے تو اس سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ جورب چمڑے کا بھی ہوتاہے۔اس لیے قوی احتمال موجود ہے کہ حضورؐ نے چمڑےہی کے جراب پرمسح کیاتھا، اگرچہ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ وہ اونی یاسوتی ہو۔ ان دواحتمالوں کی موجودگی میں ارشاد نبوی دع مایریبک الی مایریبک (شک کو چھوڑو، یقین کو اختیارکرو) کی بناپر متیقن چیز کو اختیارکرلینا چاہیے اورمشکوک کو چھوڑدینا چاہیے۔
(۳) جن ائمہ ٔ حدیث وفقہ نے یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ جورب صرف چمڑے ہی کا ہوتاہے انھوں نے جراب پرمسح کے جواز کے لیے یہ قید بڑھائی ہے کہ وہ اتنے ثخین وصفیق یعنی گاڑھے اورموٹے اونی یاسوتی کپڑے کا ہوجو باندھے بغیر پائوں میں رک سکے اور اس میں آسانی سے چلاپھر اجاسکے جس طرح خف میں چلاپھر اجاتاہے۔ اس قیدوشرط کا ماخذ یہ اصول ہے کہ حتی الوسع حدیثوں کے درمیان اختلاف واحتمال کو دور کیا جائے اوران کے درمیان تطبیق پیداکی جائے۔ ان ائمہ کو یہ معلوم تھا کہ صرف خفین ہی پر مسح کا جواز متفقہ اورثابت شدہ ہے اورجوربین والی حدیث کی صحت متفقہ اور ثابت شدہ نہیں ہے، بلکہ مختلف فیہ ہے۔ جورب کی تعیین وتعریف میں بھی اختلاف ہے۔ اس لیے اگر جورب میں کوئی ایسی قیدلگادی جائے جو اس کو خف کا قائم مقام بنادے تواس طرح خفین اورجو ربین کی حدیثوں میں تطبیق پیدا ہوجائے گی اوراختلاف واحتمال دور ہوجائے گا۔ اس طرح کی قیدوشرط کااضافہ نہ اس مسئلے کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ اصول شریعت کے خلاف ہے۔اگر وہ یہ قیدنہ لگاتے تو جوربین والی حدیث پرعمل مشکوک ومحتمل ہی رہتا۔
(۴) ان کا ماخذ صحابہ کرامؓ کے وہ بعض آثار بھی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ انھوں نے ایسے جرابوں پرمسح کیا ہے جو یا توبالوں سے بنے ہوئے تھے یا ان کے تلوے چمڑے کےتھے۔ محدث عبدالرزاق نے اپنے مصنف میں خالد بن سعید سے روایت کی ہے کہ ’’حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ ایسے جرابوں پرمسح کرتے تھے جو بالوں سے بنے ہوئے تھے۔‘‘ (عون المعبود ج۱ص۶۲)
امام بیہقیؒ نے راشد بن نجیح سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں
’’میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ایسے جرابوں پرمسح کرتے دیکھا جن کے نچلے حصے چمڑے کے تھے۔‘‘
ان آثار کے پیش نظر بھی اختلاف دور کرنے کے لیے محدثین وفقہا نے جرابوں پرمسح کے لیے جو شرط لگائی ہے اس کو بے اصل کیوں سمجھاجائے؟ امام احمد بن حنبل کے بارے میں ابن قدامہ کا بیان ہے اور دوسرے حنبلی اماموں کا بیان بھی ہے کہ وہ حضرت مغیرہؓ والی جوربین کی حدیث کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تھے، لیکن جو ربین میں شرط وقید لگاکر انھوں نے مسح کی اجازت آثار صحابہ کی بنیادپر دی تھی۔
(۵) صرف نعلین (جوتوں ) پرمسح والی حدیث کا مطلب کیا ہے ؟ یہ بات معلوم ہےکہ نبی ﷺ کے عہد میں جو نعلین (جوتے) استعمال کیے جاتے تھے وہ ٹخنوں کے نیچے ہوتے تھے اور قدموں کے اوپر کے حصے کھلے ہوئے ہوتے تھے۔ انھیں آج کل کے چپل جیسا سمجھنا چاہیے۔ اب اگر صرف جوتوں پر مسح والی حدیث کو بغیر کسی بحث وتمحیص کے مطلقاً اختیار کرلیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس حدیث نے غسل رجلین (پائوں دھونے) کے فرض کو منسوخ کردیا۔ اب پائوں دھونے کی کوئی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔ چپل پہنے ہوئے وضو کیجیے اورجب پائوں دھونے کی باری آئے تو چپل پرہاتھ پھیر لیجیے پھر اسے اتارکرمسجد میں داخل ہوجائیے اور اطمینان سے نماز اداکیجیے۔ ظاہر ہے کہ یہ اہل السنۃ والجماعۃ کامسلک نہیں ہے اورنہ اس حدیث کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ پائوں دھونے کے فرض کومنسوخ کرسکے۔
اب میں صرف جوتوں پرمسح کرنے کی ان حدیثوں پرچند باتیں عرض کروں گا جن کا حوالہ رسائل ومسائل حصہ دوم میں دیاگیاہے۔
پہلی بات یہ کہ امام بیہقی اورامام طحاوی نے وہ حدیثیں روایت ضرور کی ہیں لیکن دونوں اماموں نے مفصل بحث کرکے انھیں ناقابل استدلال وناقابل عمل قراردیاہے۔ اور امام بیہقی نے امام بخاری کی حدیث پیش کرکے اس روایت کے صحیح معنی ومطلب کی تعیین بھی کی ہےـــــصرف جوتوں پرمسح کرنےکی روایت کامطلب صرف اتنا ہے کہ چپل پہنے ہوئے بھی پائوں دھوئے جاسکتے ہیں۔ اس کام کے لیے چپلوں کو پائوں سے نکالنا ضروری نہیں ہے۔ایک بار حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ نے نعلین پہنے ہوئے کچھ لوگوں کو وضو کرکے دکھایا۔ امام بخاری نےاس واقعی کی جو روایت کی ہےاس میں پائوں کے بارے میں الفاظ یہ ہیں
ثم اخذ غرفۃ من ماء، فرش علی رجلہ الیمنی حتی غسلھا، ثم اخذ غرفۃ اخری، فغسل بھا رجلہ یعنی الیسریٰ، ثم قال ھکذا رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یتوضأ۔ (بخاری علی حاشیۃ فتح الباری ج۱ ص۱۷۰)
’’پھر انھوں نے پانی کا ایک چلولیا اور اس کو اپنے داہنے پائوں پر چھڑکایہاں تک اس کو دھودیا۔ پھر ایک دوسرا چلو لیا اور اس سے اپنے بائیں پائوں کو دھویا۔ پھر کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کواسی طرح وضو کرتے دیکھاہے۔‘‘
اس صحیح روایت میں پائوں دھونے کی تصریح ہے۔یہی واقعہ کم زور سندوں سے مسح علیٰ نعلیہ (اپنے جوتوں پر مسح کیا) کے لفظ میں روایت کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے باب غسل الرجلین فی النعلین ولا یمسح علی النعلین (دونوں پائوں جوتوں کے اندر دھونے کا باب اور یہ کہ جوتوں پر مسح نہیں کیا جائےگا) اس باب میں انھوں نے عبید بن جریح کی ایک حدیث روایت کی ہےجس میں انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے چند سوالات کیے ہیں۔ ان کا ایک سوال یہ تھا کہ آپ سبتی نعلین کیوں استعمال کرتےہیں ؟(یعنی ایسے چمڑے کے چپل جس پربال نہ ہوں ) اس سوال کے جواب میں وہ فرماتے ہیں
وأماالنعال السبتیۃ فإنی رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یلبس النعال التی لیس فیھا شعرویتوضأ فیھا وإنی أحب ان ألبسھا۔(بخاری علی حاشیۃ فتح ج۱ص۱۸۸)
’’رہے سبتی جوتے تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے جوتے پہنتے دیکھا ہے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ اس میں وضو بھی کرتے تھے اور میں انہیں پہننا پسند کرتاہوں۔ ‘‘
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہواکہ صرف نعلین (جوتوں )پر مسح کی حدیث کا تعلق مسح علی الخفین کے باب سے ہے ہی نہیں۔ اس حدیث سے جوکچھ معلوم ہوتاہے وہ صرف یہ ہے کہ جو تے پہنے ہوئے اگر کوئی شخص ہلکے طورپر اپنے پائوں دھولے تو غسل رجلین یعنی پائوں دھونے کا فرض ادا ہوجائے گا۔
دوسری بات یہ عرض کرنی ہے کہ مسح کے لفظ سے دھوکا نہ کھانا چاہیے اس لیے کہ یہ لفظ لغت اوراحادیث دونوں میں غسل خفیف (ہلکے طورپر دھونا ) کے لیے بھی استعمال ہوتاہے۔ امام طحاوی نے حضرت علیؓ سے وضوکی ایک حدیث روایت کی ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے
ثم أتی بماء، فمسح بوجھہ ویدیہ۔ (معانی الآثار ج۱ص۲۰)
’’پھر پانی لایا گیا تو انھوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پرمسح کیا۔‘‘
ظاہر ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے لیے مسح کا جو لفظ استعمال ہواہے وہ اس معنی میں نہیں ہوسکتا جس معنی میں خفین کے لیے استعمال ہوتا ہے، بلکہ غسل خفیف یا چہرے اور ہاتھوں کو پانی سے ترکر لینے کے معنی میں استعمال ہواہےـــــعلامہ ابن حجرنعلین پرمسح والی حدیث کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ولأن المسح یطلق علی الغسل الخفیف، یقال مسح علی أطرافہ لمن توضأ،ذکرہ ابوزیداللغوی وابن قتیبۃ وغیرھما۔ (فتح جلد۱ص۱۸۹)
’’اور اس لیے کہ مسح کالفظ غسل خفیف پربھی بولا جاتا ہے جس نے وضو کیاہواس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس نے اپنے اعضاپر مسح کیا۔ اس لغت کو ابوزید لغوی، ابن قتیبہ اور دوسروں نے بیان کیا ہے۔‘‘
اس تفصیل سے واضح ہواکہ صرف جوتوں پرمسح کی حدیث کو موزوں پرمسح کے مسئلے میں بطوردلیل پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ راقم الحروف کا خیال ہےکہ اگر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مدظلہ کو اس مسئلے پرنظرثانی کاموقع مل گیا تو ان کی رائے اتنی مطلق باقی نہیں رہے گی جتنی رسائل ومسائل حصہ دوم میں ہے۔ (جنوری۱۹۶۷ءج۳۸ش۱)