مولانا حسین احمد صاحب کا ایک فتو ٰی اور اس کا جائزہ

جناب مولانا حسین احمد صاحب مدنی نے ایک پمفلٹ’’مسلمان اگر چہ بے عمل ہو مگر اسلام سے خارج نہیں ہے‘‘شائع کرایا ہے، جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کا مسلک اہل سنت والجماعت کے بالکل خلاف ہے اور احادیث صحیحہ اور آیات صریحہ کے بالکل منافی ہے۔ اور لکھا ہے کہ آپ اعمال کے جزو ایمان ہونے کے قائل ہیں ، جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے اور آپ اس عقیدے کو شافعیہ اور محدثین کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔حالاں کہ شافعیہ ومحدثین اعمال کو ایمان کا جزوِ مقوم نہیں بلکہ جزو متمم و مکمل کہتے ہیں ۔ازراہِ کرم اس مسئلے کے متعلق اپنا عقیدہ بالوضاحت تحریر فرما ویں ،اور ترجمان القرآن میں شائع فرما ویں ۔انھوں نے آپ کی مندرجہ ذیل عبارات کو بطور دلیل پیش کیا ہے: (۱) ’’رہے وہ لوگ جن کو عمر بھر کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمے ہے،دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں ،یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے،اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا،تو وہ قطعاًمسلمان نہیں ہیں ۔جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ،اور قرآن سے جاہل ہے جو انھیں مسلمان سمجھتا ہے۔‘‘({ FR 1092 }) (۲) ’’اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت سب بے کار ہیں ۔ کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ ({ FR 1093 }) (۳) ’’ان دو ارکان اسلام یعنی(نماز وزکاۃ) سے جو لوگ رو گردانی کریں ،اُن کا دعواے ایمان ہی جھوٹا ہے۔‘‘({ FR 1094 }) (۴) ’’قرآن کی رُو سے کلمۂ طیبہ کا اقرار ہی بے معنی ہے اگر آدمی اس کے ثبوت میں نماز اور زکاۃکا پابند نہ ہو۔‘‘ ({ FR 1095 }) یہ سب حوالہ جات خطبات بار ہفتم کے مطابق ہیں ۔
جواب

اعتراضات کی تحقیق کا طریقہ
ایک ظلم تو مولانا حسین احمد صاحب نے کیا کہ اصل کتاب کی عبارات کو پوری طرح پڑھے بغیر،اور خود کتاب کے موضوع ومضمون سے واقفیت حاصل کیے بغیر، محض چند لوگوں کے فراہم کردہ اقتباسات کی بنا پر کتاب کے مصنف کا ایک مسلک مشخص فرما لیا اور اپنی اس تشخیص کا اعلان بھی فرما دیا۔اس پر دوسرا ظلم آپ کررہے ہیں کہ مولانا کے اس پمفلٹ کو پڑھنے کے بعد آپ نے خود نہ ’’خطبات‘‘کو پڑھا،نہ میری کسی اور کتاب سے میرا مسلک معلوم کیا،بلکہ فوراًمجھے جواب دہی کے لیے طلب فرما لیا۔ میری کتاب’’خطبات‘‘ آپ کی دست رس سے دور نہ تھی،آپ صرف اسی کو اُٹھا کر دیکھ لیتے تو آپ کو انھی عبارات کے آس پاس مولانا کے الزامات کا جواب مل جاتا۔ میری کتاب’’تفہیمات حصۂ دوم‘‘ بھی آپ کو اپنے شہر کے دارالمطالعۂ جماعتِ اسلامی میں بآسانی مل سکتی تھی۔اس کو پڑھ کر آپ کو معلوم ہوجاتا کہ آیا میں خوارج ومعتزلہ کا ہم مسلک ہوں یا اہل سنت کا۔
میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح کے اعتراضات کی تحقیق کے لیے مجھ سے سوال نہ کیا جائے۔میں صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ جن الزامات کی تحقیق آپ خود تھوڑی سی تکلیف اُٹھا کر کرسکتے ہوں ،ان کے لیے خواہ مخواہ مراسلت میں وقت کیوں صرف کیا جائے۔
فتو ٰی اور وعظ ونصیحت میں فرق
خطبات کی جن عبارات پر مولانا نے مجھے خارجی ومعتزلی بنایا ہے،اُن پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ کتاب فقہ اور علم کلام کی کتاب نہیں ہے،نہ فتوے کی زبان میں لکھی گئی ہے،بلکہ یہ ایک وعظ ونصیحت کی کتاب ہے جس سے مقصودبندگانِ خدا کو فرماں برداری پراُکسانا اور نافرمانی سے روکنا ہے۔اس میں بحث یہ نہیں ہے کہ اسلام کے آخری حدودکیا ہیں جن سے تجاوز کیے بغیر آدمی خارج ازملت قرار نہ پاسکتا ہو،بلکہ اس میں عام مسلمانوں کو دین کا اصل مقصد سمجھانے اور اخلاص فی الطاعت پر اُبھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیا اس نوعیت کی کتاب میں مجھے عوام سے یہ کہنا چاہیے تھا کہ خواہ تم نماز،روزہ،حج، زکاۃ کچھ بھی ادانہ کرو،پھر بھی تم مسلمان ہی رہو گے؟مولاناحسین احمدصاحب کو فتویٰ دینے کا شوق تھا تو وہ ضرور اپنا یہ شوق پورا فرماتے،مگر فتویٰ دینے سے پہلے انھیں اس چیز کو سمجھ تو لینا چاہیے تھا جس پر وہ فتویٰ لگا رہے تھے۔
پھر اگر مولانا نے محض پیش کردہ اقتباسات پر اکتفا نہ کیا ہوتا بلکہ اصل کتاب کو نکال کر ان عبارتوں کے سابق ولاحق کو بھی دیکھ لیا ہوتا تو مجھے اُمید نہیں کہ ان پر اعتراضات کرنے کی جرأت فرماتے۔ مثال کے طور پر حج کے متعلق میری اُس عبارت کو لیجیے جسے آپ نے سب سے پہلے نقل کیا ہے۔’’خطبات‘‘ میں اس سے پہلے یہ آیت نقل کی گئی ہے کہ:
وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا۝۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ
(آل عمران:۹۷ )
’’لوگوں پر اللّٰہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہوجانا چاہیے کہ اللّٰہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘
پھر نبیﷺ کا یہ ارشادنقل کیا گیاہے کہ:’’جو زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے وہ بیت اﷲ تک پہنچ سکے اور پھر وہ حج نہ کرے،تو اس کا اس حالت پر مرنا اور یہودی ونصرانی ہوکر مرنا یکساں ہے۔‘‘({ FR 1142 })
پھر اسی مضمون کی ایک اور حدیث نقل کرنے کے بعد حضرت عمرؓ کا یہ قو ل نقل کیا گیا ہے کہ’’جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے،میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگا دوں ۔وہ مسلمان نہیں ہیں ،وہ مسلمان نہیں ہیں ۔‘‘ ({ FR 1143 })ان ساری چیزوں کو نقل کرنے کے بعد میں نے وہ فقرے لکھے ہیں جو آپ نے مولانا کے پمفلٹ سے نقل فرمائے ہیں ۔اب فرمایے کہ اس عبارت پر خارجیت اور اعتزال کا جو فتویٰ مولانا صاحب نے جڑ دیا ہے اس کی زد کہاں کہاں جاکر پڑتی ہے؟کیا میں مولانا کو خدا سے اتنا بے خوف فرض کروں کہ یہ سب کچھ پڑھ لینے کے بعد بھی وہ اس مفتیانہ تیراندازی کی جسارت کر گزرتے؟
اسی طرح نماز اور زکاۃ سے متعلق میری جو عبارتیں آپ نے مولانا کے پمفلٹ سے نقل فرمائی ہیں ،ان کے آگے اور پیچھے میں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے اس مشہور کارنامے کو بھی نقل کیا ہے کہ انھوں نے مانعین زکاۃ کے خلاف جہاد کیا۔ اور اس کے ساتھ بکثرت آیات بھی نقل کی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۝۰ۭ وَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ
(التوبۃ:۱۱)
’’پس اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں ۔ اور جاننے والوں کے لیے ہم اپنے احکام واضح کیے دیتے ہیں ۔‘‘
کیا اس سیاق وسباق پر نظر ڈالنے کے بعد بھی خارجیت اور اعتزال کے اس فتوے کو آپ ممکن سمجھ سکتے ہیں جو مولانا کے قلم سے میر ی ان عبارتوں پر نکلا ہے؟ (ترجمان القرآن ،مارچ۱۹۵۲ء)