جواب
مویشی(مثلاً اونٹ،گائے،بھینس،بکری اور جو ان کے مانند ہوں ) اگر افزائش نسل کی غرض سے پالے جائیں اور بقدر نصاب یا اس سے زائد ہوں تو ان پر وہ زکاۃ عائد ہوگی جو شریعت میں مواشی کے لیے مقرر ہے({ FR 2214 }) اورا گر وہ تجارت کے لیے ہوں تو ان پر تجارتی زکاۃ ہے۔یعنی اگر ان کی قیمت بقدر نصاب (دو سو درہم) یا اس سے زائد ہو تو ان پر ڈھائی فی صدی زکاۃ لی جائے گی۔اور اگر ان سے زراعت یا نقل و حمل کا کام لیا جاتا ہو،یا کسی شخص نے ان کو ذاتی استعمال کے لیے پالا ہو، تو ان کی تعداد خواہ کتنی ہی ہو،ان پر کوئی زکاۃ نہیں ۔
مرغیاں اور دوسرے جانور اگر شوقیہ پالے جائیں تو و ہ زکاۃ سے مستثنیٰ ہیں ۔ اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان پر تجارتی زکاۃ ہے۔ اور اگر انڈوں کی فروخت کے لیے مرغی خانہ قائم کیا جائے تو اُس کا وہی حکم ہے جو شیر خانہ اور دوسرے کارخانوں کا ہے۔
مویشی کی زکاۃنقدی کی صورت میں بھی وصول کی جاسکتی ہے اور خود مویشی بھی زکاۃ میں لیے جاسکتے ہیں ۔اس پر حضرت علیؓ کا فتویٰ ہے۔({ FR 2045 }) ( ترجمان القرآن،نومبر۱۹۵۰ء)