مُتعہ کی بحث

جناب نے سورہ المؤمنون کی تفسیر کرتے ہوئے مُتعہ کے متعلق حضرت ابن عباسؓ اور دیگر چند صحابہ وتابعین کے اقوال نقل کر کے ارشاد فرمایا کہ یہ سب حضرات اضطراری صورت میں متعہ کے قائل تھے۔ مگر تقریباً اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے حلت متعہ سے رجوع کرلیا تھا۔ میں حیران ہوں کہ حضرت ابن عباسؓ کا رجوع آپ کی نظر سے کیوں مخفی رہا۔ تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ اور تابعین کا حرمت متعہ پر کامل اتفاق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ نے بھی متعہ کو حرام مانا ہے۔ لیکن اضطرار کی ایک فرضی اور خیالی صورت تحریر فرما کر اسے جائز ٹھیرا دیا ہے۔ امید ہے کہ آپ اپنی راے پر نظر ثانی کریں گے۔یہ اہل سنت کا متفقہ مسئلہ ہے۔
جواب

اس مسئلے میں جو کچھ میں نے لکھا ہے ،اس کا مدعا دراصل یہ بتانا ہے کہ صحابہ وتابعین اور فقہا میں سے جو چند بزرگ جوازِ متعہ کے قائل ہوئے ہیں ،ان کا منشا اس فعل کا مطلق جواز نہ تھا، بلکہ وہ اسے حرام سمجھتے ہوئے بحالت اضطرار جائز رکھتے تھے اور ان میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہ تھا کہ عام حالات میں متعہ کو نکاح کی طرح معمول بنایا جائے۔ اضطرار کی ایک فرضی مثال جو میں نے دی ہے، اس سے محض اضطراری حالات کا ایک تصور دلانا مقصود تھا،تاکہ ایک شخص یہ سمجھ سکے کہ شیعہ حضرات کو اگر قائلین جواز کا مسلک ہی اختیار کرنا ہے تو انھیں کس قسم کی مجبوریوں تک اسے محدو د رکھنا چاہیے۔ اس سے میں تو دراصل ان لوگوں کے خیال کی اصلاح کرنا چاہتا تھا جنھوں نے اضطرار کی شرط اڑا کر متعہ کو مطلقاًحلال ٹھیرا دیا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ میرے طرزِ بیان سے آپ کی طرح بعض اصحاب کو یہ غلط فہمی لاحق ہوگئی کہ میں خود حالتِ اضطرار میں اس کو جائز قرار دے رہا ہوں ، حالاں کہ میں اس کی قطعی حرمت کا قائل ہوں اور اب سے کئی سال پہلے رسائل ومسائل [سوال نمبر۴۴۴] میں اس کی تصریح کرچکا ہوں ۔ بہرحال آپ مطمئن رہیں کہ نظر ثانی کے موقع پر اس عبارت میں ایسی اصلاح کردی جائے گی کہ اس طرح کی کسی غلط فہمی کا امکان نہ رہے۔
یہ امر ملحوظِ خاطر رہے کہ دوسری صدی ہجری کے آغاز تک متعہ کا مسئلہ مختلف فیہ تھا، اور اختلاف صرف اس امر میں تھا کہ آیا یہ قطعی حرام ہے یا اس کی حرمت مردار اور خنزیر کی سی ہے جو اضطرار کی حالت میں جواز سے بدل سکتی ہو۔ اکثریت پہلی بات کی قائل تھی اور ایک چھوٹی سی اقلیت دوسری بات کی۔ بعد میں اہل سنت کے تمام اہل علم اس پر متفق ہوگئے کہ یہ قطعی حرام ہے، اور جواز بحالت اضطرار کا مسلک ردّ کردیا گیا۔ اس کے برعکس شیعہ حضرات نے اس کے مطلق حلال ہونے کا عقیدہ اختیار کیا اور اضطرار کیامعنی، ضرورت تک کی شرط باقی نہ رہنے دی۔اس بحث میں جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ متعہ کی حرمت تو بہرحال ثابت ہے او رمطلق حلت کا خیال کسی طرح قابل قبول نہیں ہے،البتہ سلف کے ایک گروہ کی راے میں اس کے جواز کی گنجائش اضطرار کی حالت کے لیے تھی لہٰذا متعہ کے قائلین اگر انھی کی راے کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کم ازکم اس حد سے تو تجاوز نہ کرنا چاہیے۔
آپ نے متعہ کے بارے میں ابن عباسؓ کے رجوع کا جو ذکر کیا ہے،اس کے متعلق گزارش ہے کہ اہل علم کے وہ اقوال میرے سامنے موجود ہیں جن میں ان کے رجوع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ دعویٰ مختلف فیہ ہے۔اس باب میں جو روایات نقل کی گئی ہیں ، ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ابن عباسؓ نے اپنی راے کی غلطی مان لی تھی بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف مصلحتاً اس کے حق میں فتویٰ دینے سے پرہیز کرنے لگے تھے۔
فتح الباری میں حافظ ابن حجرؒ، ابن بطالؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: رَوَى أهْلُ مَكَّةَ وَالْيَمَنِ عَن ابْنِ عَبَّاسٍ إِبَاحَةَ الْمُتْعَةِ، وَرُوِيَ عَنْهُ الرُّجُوعُ بِأَسَانِيدَ ضَعِيفَةٍ، وَإِجَازَةُ الْمُتْعَةِ عَنْهُ أَصَحُّ ({ FR 1965 }) ’’اہل مکہ ویمن نے ابن عباسؓ سے متعہ کی اباحت نقل کی ہے۔اگر چہ اس قول سے ان کے رجوع کی روایات بھی آئی ہیں مگر ان کی سندیں ضعیف ہیں اور زیادہ صحیح روایات یہ ہیں کہ وہ اس کو جائز رکھتے تھے۔‘‘
علامہ ابن قیمؒ اس معاملے میں اپنی تحقیق جس طرح بیان کرتے ہیں ،اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مصلحتاً فتویٰ دینے سے ان کے اجتناب ہی کو ان کا رجوع سمجھا گیا ہے۔وہ کہتے ہیں :
فَلَمَّا تَوَسَّعَ فِيهَا مَنْ تَوَسَّعَ، وَلَمْ يَقِفْ عِنْدَ الضَّرُورَةِ، أَمْسَكَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ الْإِفْتَاءِ بِحِلِّهَا، وَرَجَعَ عَنْهُ({ FR 1966 })
’’جب لوگ اس معاملے میں توسع برتنے لگے اور ضرورت تک انھوں نے اسے محدود نہ رکھا تو ابن عباسؓ اس کی حلت کا فتویٰ دینے سے رک گئے اور اس سے رجوع کرلیا۔‘‘ (ترجمان القرآن، نومبر۱۹۵۵ء)