مہر ادا کرنے کی صورتیں

پانچ شرعی مسئلے دریافت کرنا چاہتا ہوں ۔ امید ہے آپ جواب دیں گے۔ ۱- زید کے نکاح کو کئی برس ہوگئے مگر اس نے اب تک اپنی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا۔ مہر مؤجل تھا۔ اب وہ سارا مہر یک مشت ادا کرے یا وہ مجبوری کی بنا پر ماہانہ قسطوں میں بھی ادا کرسکتا ہے؟ اس کی بیوی مہر طلب نہیں کر رہی ہے۔ وہ صرف شرعی تقاضا مکمل کرنا چاہتا ہے۔ ۲- اگر بیوی پوری زندگی میں کبھی بھی اپنا مہر طلب نہ کرے تو کیا زید گناہ گار ہوگا؟ ۳- کیا بیوی سے مہر معاف کرایا جاسکتا ہے؟ یہ بات معلوم ہے کہ وہ جب بھی طلب کرے گی تو شرعی تقاضے اور اخلاقی نقطۂ نظر سے اُسے ضرور دینا ہوگا۔ ۴- اگر سونا بحیثیت مہر دیا جاسکتا ہے تو زید نے سونے کے جو زیورات نکاح کے موقعے پر بری کے طور پر دیے تھے کیا وہ مہر مانے جاسکتے ہیں جب کہ اُن زیورات کی قیمت مہر کی رقم کے برابر ہو۔ ۵- کیا مہر سونے کی شکل میں یعنی زیورات کی شکل میں دیا جاسکتا ہے؟ ۶- کیا مہر نقد رقم کے علاوہ کسی دوسری شکل میں بھی دیا جاسکتا ہے مثلاً جائداد۔
جواب

آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں :
۱- زید اپنی بیوی کا مہر اگر وہ موجل ہے تو زندگی میں کسی بھی وقت ادا کرسکتا ہے۔ بیوی کو اعتراض نہ ہو تو مہر قسط وار ادا ہوسکتا ہے۔ یک مشت ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔
۲- بیوی عمر بھر شوہر سے مہر کا مطالبہ نہ کرے تو اس کے مطالبہ نہ کرنے سے شوہر کیوں گناہ گار ہوگا؟ لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مہر کا ادا کرنا شوہر پر فرض ہے۔ بیوی کے مطالبہ نہ کرنے سے یہ ساقط نہیں ہوجائے گا۔ وہ مطالبہ کرے یا نہ کرے شوہر پر فرض ہے کہ خود سے اسے ادا کرے۔
۳- بیوی سے مہر معاف کرایا جاسکتا ہے۔ مہر معاف کرنے کے بعد وہ دوبارہ طلب نہیں کرسکتی۔ مہر معاف کرانے کے لیے اس پر دباؤ ڈالنا صحیح نہیں ہے۔
۴- زیورات کی شکل میں مہر دینا درست ہے۔
۵- زید نے نکاح کے وقت بیوی کو جو زیورات دیے ان کے بارے میں اگر اس نے صراحت کر دی تھی کہ مہر کے عوض دیے جا رہے ہیں یا کسی جگہ عرف عام میں ان زیورات کو مہر کے عوض سمجھا جاتا ہو تو مہر ادا ہوجائے گا۔ ان دو صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہو تو وہ ہدیہ تصور کیے جائیں گے۔ مہر الگ سے ادا کرنا ہوگا۔
۶- مہر میں نقد رقم کے علاوہ مالیت رکھنے والی کوئی بھی چیز دی جاسکتی ہے۔ لہٰذا جائداد کا دینا بھی صحیح ہے۔