جواب
قرآن وحدیث کی رُو سے مہر دراصل اس حقِ زوجیت کا معاوضہ ہے جو ایک مرد کو اپنی بیوی پر حاصل ہوتا ہے۔قرآن میں فرمایا گیا ہے:
وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ (النسائ :۲۴)
’’ان کے ماسوا جو تمھاری عورتیں ہیں ،تمھارے لیے حلال کیا گیا کہ اپنے مالوں کے عوض ان سے طلب نکاح کرو۔‘‘
فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِ يْضَۃً (النسائ:۲۴)
’’پس جو لطف تم نے ان سے اُٹھایاہے اس کے بدلے ان کے مہر بطور ایک فرض کے ادا کرو۔‘‘
وَكَيْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَقَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ (النسائ:۲۱)
’’اور تم وہ مال کیسے لے سکتے ہو جب کہ تم میں سے ایک دوسرے سے اختلاط کرچکا ہے۔‘‘
ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مہر ہی وہ چیز ہے جس کے عوض مردکو عورت پر شوہرانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔ پھر اس کی مزید تصریح وہ احادیث کرتی ہیں جو اس معنی میں نبی ﷺ سے مروی ہیں ۔صحاح ستہ اور دارمی اور مسند احمد میں حضورﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے:
اَحَقُّ الشُّرُوطِ أَن تُوْفُوا بِہٖ مَااسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوْجَ ۔({ FR 1957 })
’’تمام شرطوں سے بڑھ کر جو شرط اس کی مستحق ہے کہ تم اسے پوراکرو، وہ شرط وہ ہے جس پر تم عورتوں کی شرم گاہوں کو حلال کرتے ہو۔‘‘
لِعان کا وہ مشہور مقدمہ، جس میں نبی ﷺ نے زوجین کے درمیان تفریق کرائی تھی، اس کا ذکر کرتے ہوئے عبداﷲ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ جب تفریق ہوچکی تو شوہر نے عرض کیا: یارسول اﷲﷺ! میرا مال مجھے واپس دلوایا جائے۔آپﷺ نے جواب میں فرمایا:
لَا مَالَ لَکَ اِنْ کُنْتَ صَدَقْتَ عَلَیْھَا فَھُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِھَا، وَاِنْ کُنْتَ کَذَبْتَ عَلَیْھَا فَذٰلِکَ اَبْعَدُ لَکَ مِنْھَا۔({ FR 1958 })
’’مال لینے کا تجھے کوئی حق نہیں ہے۔اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے تو اس کی شرم گاہ جو تو نے اپنے لیے حلال کی تھی،اس کے معاوضے میں وہ مال ادا ہوچکا،اور اگر تو نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو مال لینے کا حق تجھ سے اور بھی زیادہ دُور ہوگیا۔‘‘
اِ س سے بھی زیادہ تصریح ایک اور حدیث میں ہے جو امام احمدؒ اپنی مسند میں لائے ہیں کہ:
مَنْ تَزَوَّجَ إمْرَأَۃً عَلَی صَدَاقٍ، وَھُوَ یَنْوِی اِلَّایُؤَدِیْہِ إلَیْھَا فَھُوَ زَانٍ({ FR 1959 })
( ’’جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ یہ مہر دینا نہیں ہے وہ زانی ہے۔‘‘
ان تمام نصوص سے مہر کی یہ حیثیت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کوئی رسمی ونمائشی چیز نہیں ہے بلکہ وہ چیز ہے جس کے معاوضے میں ایک عورت ایک مرد کے لیے حلال ہوتی ہے۔ اور ان نصوص کا اقتضا یہ ہے کہ استحلال فرج کے ساتھ ہی پورا مہر فوراًواجب الادا ہوجائے۔ الّایہ کہ زوجین کے درمیان اس کو مؤخر کردینے کے لیے کوئی قرار داد ہوچکی ہو۔
پس زرِ مہر کی ادائگی کے معاملے میں اصل تعجیل ہے نہ کہ تاجیل۔مہرکا حق یہ ہے کہ وہ استحلال فرج کے ساتھ بروقت ادا ہو، اور یہ محض ایک رعایت ہے کہ اس کو ادا کرنے میں مہلت دی جائے۔ اگر مہلت کے بارے میں زوجین کے درمیان کوئی قرار داد نہ ہوئی ہو تو اعتبار اصل(تعجیل) کا کیا جائے گا نہ کہ رعایت (یعنی تاجیل اور مہلت) کا۔ یہ بات شارع کے منشا کے بالکل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ تاجیل کو اصل قرار دیا جائے اور تاجیل وتعجیل کے غیر مصرّح ہونے کی صورت میں زرِ مہر کو آپ سے آپ موّجل ٹھیرایا جائے۔
فقہاے حنفیہ کے درمیان اس مسئلے میں دو گروہ پائے جاتے ہیں ۔ایک گروہ کی راے وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی۔ ’’غایۃ البیان‘‘ میں ہے:
فإِنْ کَانَ یَعْنِی الْمَھْرَ بِشَرْطِ التَّعْجِیْلِ أَوْمَسْکُوتًا عَنْہُ یَجِبُ حَالاّ وَلَھَا أَنْ تَمْنَعَ نَفْسَھَا حَتّٰی یُعْطِیَھَا الْمَھْرَ ({ FR 2081 })
’’اگر مہر بشرط تعجیل ہو یا اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو( کہ معجل ہے یا مؤجّل) تو وہ فوراً واجب ہوگا اور عورت کو حق ہوگا کہ اپنے آپ کو شوہر سے روک لے جب تک وہ مہر ادا نہ کرے۔‘‘
اور شرح العنایۃ علی الھدایۃ میں ہے:
فإِنْ سَمَّوا الْمَھْرَ سَاکِتِیْنَ عَنِ التَّعْجِیْلِ وَالتَّاجِیْلِ مَاذَا یَکُوْنُ حُکْمْہُ؟ قُلْتُ یَجِبُ حَالاَّ ] ... [ فَیَکُوْنُ حُکْمُہُ حُکْمَ مَاشُرِطَ تَعْجِیْلُہُ۔({ FR 2082 })
’’پھر اگر مہر مقرر کردیا گیا اور معجل یا مؤجل کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ میں کہتا ہوں کہ وہ فوراً واجب ہوگا، اس کا حکم اس مہر کا سا حکم ہے جس کے لیے تعجیل کی شرط کی گئی ہو۔‘‘
اور اسبیجابی میں ہے:
اِنَّ الْمَھْرَ مُعَجَّلاً أَوْمَسْکُوتاً عَنْہُ فإِنَّہُ یَجِبُ حَالاًّ لِأَنَّ النِّکَاحَ عَقْدُ مُعَاوَضَۃٍ وَقَدْ تَعَیَّنَ حَقُّہُ فِی الزَّوجَۃِ فَوَجَبَ أَنْ یَتَعَیَّنَ حَقُّھَا وَذَلِکَ بِالتَّسْلِیْمِ۔ ({ FR 2083 }) ’’اگر مہر معجل ہو یا اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو تو وہ فوراً واجب ہوگا کیوں کہ نکاح ایک عقد بامعاوضہ ہے،جب زوجہ میں شوہر کا حق متعین ہوگیا تو واجب آیا کہ عورت کا حق بھی متعین ہوجائے اور وہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ مہر ادا کردیا جائے۔‘‘
رہا دوسرا گروہ،تو وہ کہتا ہے کہ اس معاملے میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا۔ فتاویٰ قاضی خاں میں ہے:
فإِنْ لَمْ یُبَیِّنُوا قَدْرَ الْمُعَجَّلِ یُنْظَرُ إلَی الْمَرْأَۃِ وَإلیَ الْمَھْرِ أَنَّہُ کَمْ یَکُونُ الْمُعَجَّلُ لِمِثْلِ ھٰذِہِ الْمَرْأَۃِ مِنْ مِثْلِ ھٰذَا الْمَھْرِ فَیَعَجَّلُ ذَالِکَ وَلَا یَتَقَدَّرُ بِالرُّبْعِ وَالْخُمْسِ بَلْ یُعْتَبَرُ الْمُتَعَارَفُ۔ ({ FR 2084 }) ’’اگر معجل کی مقدار واضح نہ کی گئی ہو تو دیکھا جائے گا کہ عورت کس طبقے کی ہے اور مہر کتنا ہے اور یہ کہ ایسی عورت کے لیے ایسے مہر میں سے کس قدر معجل قرار دیا جاتا ہے۔بس اتنی ہی مقدار معجل قرار دی جائے،ایک چوتھائی یا پانچویں حصے کی تعیین نہ کردینی چاہیے، جو رواج ہو اس کا اعتبار کرنا چاہیے۔‘‘
اسی راے کی تائید علامہ ابن ہمامؒ نے ’’فتح القدیر‘‘ میں کی ہے۔وہ لکھتے ہیں :
وَإنْ لَمْ یَشْتَرِطْ تَعْجِیْلَ شَیْ ئٍ بَلْ سَکَتُوا عَنْ تَعْجِیْلِہِ وتَاجِیْلِہِ فإِنْ کَانَ عُرْفٌ فِی تَعْجِیْلَ بَعْضِہٖ وَتَأْخِیْر بَاقِیْہِ إلَی المَوْتِ أوْالْمَیْسَرَۃِ أَوْالطَّلاَقِ فَلَیْسَ لَھَا أَنْ تَحْتَبِسَ إلاَّ إلٰی تَسْلِیْمِ ذَالِکَ الْقَدْرِ۔({ FR 2085 }) ’’اور اگر کسی حصۂ مہر کی تعجیل کی شرط نہ کی گئی ہو بلکہ تعجیل اور تاجیل کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو تو رواج کو دیکھا جائے گا۔ اگر رواج یہ ہے کہ ایک حصہ معجل قرار دیا جاتا ہے اور باقی حصہ موت تک یا خوش حالی یا طلاق تک مؤخر رکھا جاتا ہے، تو عورت صرف اتنی ہی مقدار وصول ہونے تک اپنے آپ کو شوہر سے روکنے کاحق رکھتی ہے۔‘‘
اصولی حیثیت سے دیکھا جائے تو پہلے گروہ کی راے قرآن وحدیث کی منشا سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ لیکن دوسرے گروہ کی راے بھی بے وزن نہیں ہے۔ان کے قول کا مدعا یہ نہیں ہے کہ مہر کے باب میں تاجیل اصل ہے اور جب تاجیل وتعجیل کی صراحت نہ ہو تو معاملہ اصل یعنی تاجیل کی طرف راجع ہونا چاہیے۔بلکہ وہ اپنے فتوے میں ایک اور قاعدے کا لحاظ کرتے ہیں جسے شریعت میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ کسی سوسائٹی میں معاملات کے متعلق جوطریقہ عام طور پر مروّج ہو،اس کی حیثیت افراد کے درمیان ایک بے لکھے معاہدے کی سی ہوتی ہے۔اگر اس سوسائٹی کے دو فریق باہم کوئی معاملہ طے کریں اور کسی خاص پہلو کے بارے میں بصراحت کوئی قراردادنہ کریں تو یہ سمجھا جائے گا کہ اِ س پہلو میں وہ مروّجہ طریقے پر راضی ہیں ۔
بلاشبہہ یہ قاعدہ شریعت میں مسلّم ہے، اور اس لحاظ سے فقہا کے دوسرے گروہ کی راے بھی غلط نہیں ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم کسی خاص سوسائٹی میں اس قاعدے کو جاری کریں ،ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شریعت نے رواج کوبطور ایک ما ٔ خذِ قانون (source of law) کے تسلیم نہیں کیا ہے کہ جو کچھ رواج ہو وہی شریعت کے نزدیک حق ہو۔ بلکہ اس کے برعکس وہ غیر متقی سوسائٹی اور اس کے غیر منصفانہ رواجوں کو قبول کرنے کے بجاے ان کو بدلنا چاہتی ہے اور صرف ان رواجوں کو تسلیم کرتی ہے جو ایک اصلاح شدہ سوسائٹی میں شریعت کی رُوح اور اس کے اصولوں کے تحت پیدا ہوئے ہوں ۔لہٰذا رواج کو بے لکھا معاہدہ مان کر مثل ِ قانون نافذ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جس سوسائٹی کے رواج کو ہم یہ حیثیت دے رہے ہیں کیا وہ ایک متقی سوسائٹی ہے؟ اور کیا اس کے رواج شریعت کی روح اور اس کے اصولوں کی پیروی میں پیدا ہوئے ہیں ؟اگر تحقیق سے اس کا جواب نفی میں ملے تو اس قاعدے کومثلِ قانون جاری کرنا عدل نہیں بلکہ قطعاً ایک ظلم ہوگا۔
اس نقطۂ نظر سے جب ہم اپنے ملک کی موجودہ مسلم سوسائٹی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ تعلقاتِ زن وشوہر کے معاملے میں اس نے خواہشاتِ نفس کی پیروی اختیار کرکے اس توازن کو بہت کچھ بگاڑ دیا ہے جو شریعت نے قائم کیا تھا، اور بالعموم اس کا میلان ایسے طریقوں کی طرف ہے جو شریعت کی روح اوراس کے احکام سے صریحاً منحرف ہیں ۔اسی مہر کے معاملے کو لے لیجیے جس پر ہم یہاں گفتگو کررہے ہیں ۔اِ س ملک کے مسلمان بالعموم مہر کو محض ایک رسمی چیز سمجھتے ہیں ۔ان کی نگاہ میں اس کی وہ اہمیت قطعاً نہیں ہے جو قرآن وحدیث میں اس کو دی گئی ہے۔ نکاح کے وقت بالکل ایک نمائشی طور پر مہر کی قرار داد ہوجاتی ہے مگر اس امر کا کوئی تصور ذہنوں میں نہیں ہوتا کہ اس قرار داد کو پورا بھی کرنا ہے۔بارہا ہم نے مہرکی بات چیت میں اپنے کانوں سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ’’میاں کون لیتا ہے کون دیتا ہے‘‘، گویا یہ فعل محض ضابطے کی خانہ پُری کے لیے کیا جارہا ہے۔ہمارے علم میں ۸۰فی صدی نکاح ایسے ہوتے ہیں جن میں مہر سرے سے کبھی ادا ہی نہیں کیا جاتا۔ زرِ مہر کی مقدار مقرر کرنے میں اکثر جو چیزلوگوں کے پیش نظر ہوتی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ اسے طلاق کی روک تھام کا ذریعہ بنایا جائے۔اس طرح عملاً عورتو ں کے ایک شرعی حق کو کالعدم کردیا گیا ہے اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی گئی کہ جس شریعت کی رُو سے یہ لوگ عورتوں کو مردوں پر حلال کرتے ہیں وہ مہرکو استحلالِ فروج کا معاوضہ قرار دیتی ہے، اور اگر معاوضہ ادا کرنے کی نیت نہ ہو تو خدا کے نزدیک عورت مرد پرحلال ہی نہیں ہوتی۔
ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جس سوسائٹی کا عرف اتنا بگڑ چکا ہو اور جس کے رواج نے شریعت کے احکام اور اس کی رُوح کے بالکل خلاف صورتیں اختیار کرلی ہوں ،اس کے عرف و رواج کو ازرُوئے شریعت جائز قرار دینا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے۔ جن فقہا کی عبارتیں اعتبار عرف کی تائید میں نقل کی جاتی ہیں ،ان کے پیش نظر نہ یہ بگڑی ہوئی سوسائٹی تھی اور نہ اس کے خلافِ شریعت رواج۔ انھوں نے جو کچھ لکھا تھا،وہ ایک اصلاح شدہ سوسائٹی اور اس کے عرف کو پیش نظر رکھ کر لکھا تھا۔کوئی مفتی مجرد ان کی عبارتوں کو نقل کرکے اپنی ذمہ داری سے سبک دوش نہیں ہوسکتا۔اس کا فرض ہے کہ فتویٰ دینے سے پہلے اصولِ شریعت کی روشنی میں ان کی عبارتوں کو اچھی طرح سمجھ لے اور یہ تحقیق کرلے کہ جن حالات میں انھوں نے وہ عبارتیں لکھی تھیں ،ان سے وہ حالات مختلف تو نہیں ہیں جن پر آج انھیں چسپاں کیا جارہا ہے۔ (ترجمان القرآن، جولائی،اگست۱۹۴۳ء)