میراث کی عدم تقسیم سے پیدا ہونے والے مسائل

میرے والد صاحب نے اپنے ذاتی سرماے سے ایک دوکان لگائی۔ اس سے پورے گھر کا خر چ چلتا تھا۔ انھوں نے اپنی معاونت کے لیے میرے ایک بھائی کو اور کچھ دنوں کے بعد دوسرے بھائی کو شریک کیا۔ چند سال قبل والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ترکے کی تقسیم عمل میں نہیں آئی۔ بڑے بھائی اس دوکان کی آمدنی سے پورے گھر کا خرچ اٹھاتے رہے۔ لیکن اب وہ گھر کا خرچ اٹھانے سے انکار کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ دوکان سے ہونے والے منافع کے صرف وہی حق دار ہیں ، دوسرے بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا جو بھائی دوکان چلا رہا ہے صرف وہی کل منافع کا حق دار ہے یا وہ صرف اجرت کا مستحق ہے اور منافع میں تمام ورثاء شریک ہوں گے؟ وہ دوکان ایسی ہے کہ اگر اسے صرف کرایے پر اٹھا دیا جائے تو ماہانہ پچاس ہزار روپے کرایہ آسکتا ہے۔
جواب

اسلامی شریعت پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں انسانی زندگی میں کتنی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں ، آپ کا کیس اس کا ایک نمونہ ہے۔ اس پر غور کرنے سے چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں :
(۱) کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی چیزوں میں سے کوئی چیز کسی کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ اسی طرح باپ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو اپنی کسی چیز کا مالک بنا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حدیث سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ اگر کسی شخص کی کئی اولادیں ہوں اور وہ کوئی چیز دینا چاہے تو سب کو برابر برابر دے، تاکہ ان میں سے کسی کو اپنی حق تلفی کا احساس نہ ہو۔ حتیٰ کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بھی فرق نہ کرنا چاہیے۔ آپ کے بیان کے مطابق آپ کے والد نے ایسا نہیں کیا۔ یعنی اپنے کسی بیٹے کو اپنی زندگی میں اپنی کسی چیز کا مالک نہیں بنایا۔
(۲) کاروبار میں اگر سرمایہ باپ کا لگا ہے، لڑکوں نے کاروبار بڑھانے میں باپ کا تعاون کیا ہے تو مناسب یہ ہے کہ ابتداء ہی میں لڑکوں کی حیثیت متعین کرلی جائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو باپ کے زیر کفالت ہونے کی صورت میں وہ باپ کے معاون شمار ہوں گے، منافع میں ان کا الگ سے حصہ نہیں لگایا جائے گا۔
(۳) باپ کے انتقال کے بعد فوراً اس کی پوری ملکیت (مکان، دوکان، زمین، جائداد، کاروبار وغیرہ) ورثاء کے درمیان تقسیم ہوجانی چاہیے تھی۔ اگر اس وقت تقسیم نہیں ہوئی تو اب جتنی جلد ممکن ہو، اسے تقسیم کرلینا چاہیے۔
(۴) آپ کا جو بھائی دوکان چلارہا ہے، ظاہر ہے وہ دوکان اس کی ملکیت نہیں ہے، کیوں کہ باپ نے اپنی زندگی میں اسے دوکان کا مالک نہیں بنایا۔ محض یہ بات کہ وہ باپ کی زندگی میں ان کے ساتھ دوکان پر بیٹھتا تھا، اس کامالک ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کی تقسیم شرعی اعتبار سے ہونی چاہیے۔ اس کی ایک قابل عمل صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس کی مالیت متعین کرکے اس میں دو سرے بھائیوں اور دیگر ورثاء کا جو حصہ بنتا ہو اسے وہ ادا کردے، اس طرح دوکان کا مالک بن جائے، بہ شرط یہ کہ دیگر ورثاء اس پر تیار ہوجائیں ، یا کسی اور صورت پر تمام ورثاء اتفاق کرلیں ۔ بہر حال کسی ایک بھائی کا اپنے باپ کی پوری میراث پر قبضہ کرلینا اور دیگر ورثاء کو محروم رکھنا کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔