ایک صاحب چند ماہ سے جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کررہے تھے۔ اسی دوران میں انھوں نے اپنےیہاں میلاد میں شرکت کی دعوت دی۔ میں شریک ہوالیکن قیام کے وقت بیٹھارہا۔انھوں نے اس کے بعد لٹریچر پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ میلاد میں قیام کے عدم جواز کو ثابت کیا جائے۔ اس ذیل میں دوسوالوں کے جواب دیجیے-
(۱) میلادوں کی حیثیت کیا ہے؟ (۲) آج کل مجالس میلاد میں جو کتابیں پڑھی جاتی ہیں وہ غلط اور جھوٹی روایات سے بھری ہوئی ہوتی ہیں ۔ ایسی مجالس میلاد میں شرکت سے اجتناب لازم ہے یا نہیں ؟
جواب
آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ میلاد میں قیام کامسئلہ بہت زمانے سے مسلمانوں میں جھگڑے کا سبب بنا ہواہے۔ اہل حدیث اور علمائے دیوبند اس کو بدعت بلکہ شرک تک کہتے ہیں اور بریلی کے علماء اس کو محبت رسول کا بہت بڑا مظہر قراردیتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے نزدیک کسی مسلمان کے سنی یا وہابی ہونے کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ وہ میلاد میں قیام کرتا ہے یا نہیں ؟ اگر کرتا ہے تو سنی ہے ورنہ وہابی۔ جماعت اسلامی اسی لیے یہ مناسب سمجھتی ہےکہ ان مسائل میں الجھے بغیر بنیادی عقائد واعمال کی تبلیغ کرے۔ اگر کوئی مسلمان سنت کی حقیقت اور اس عقیدۂ توحید سے واقف ہوجائے جس کی تعلیم قرآن نے اور نبی ﷺ نے دی ہے تو وہ خود ان باتوں سے پرہیز کرنے لگے گا۔ جہاں تک میرا خیال ہے اس وقت میلادوں میں جو قیام رائج ہے اس کی حیثیت محض ایک غلط رسم کی ہے جو چلی آرہی ہے ۔ عام طورپر لوگ سمجھتے ہیں کہ بیان ولادت کے وقت قیام کیا جاتا ہے اس لیے وہ کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ شاید ہی کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ اس وقت اس مجلس میں رسول اللہﷺ تشریف لے آئے ہیں ۔ اس رسم کو ختم ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے صبر اور حکمت کے ساتھ تبلیغ کی ضرورت ہے۔ جھگڑے سے بچنے کےلیے اس طرح کی مجالس میں شریک نہ ہونا بہتر ہے۔ (مارچ ۱۹۶۹ءج۴۲ش۳)