عورتیں اپنے بالوں کی آرائش بڑھانے کے لیے سوت اورریشم کی چوٹیاں بالوں میں ملاکر گوندھتی ہیں جس سے بال باندھنے میں بھی مددملتی ہے، نیز بال لمبے اور گھنے معلوم ہوتے ہیں۔ عورتوں کایہ عمل عام ہے اور اس پر کبھی کوئی نکیر سننے میں نہیں آئی۔ اس لیے کہ حدیث میں بالوں میں بال ملانے کی ممانعت ہے، بال کے علاوہ دوسری چیزوں کے ملانے کی ممانعت نہیں ہے۔
اب صنعتی ترقی کے اس دور میں نائیلون کی چوٹیاں ایجاد ہوگئی ہیں۔ یہ مصنوعی بالوں کی چوٹیاں ہوتی ہیں جو دیکھنے میں بالکل بال سے مشابہ ہوتی ہیں لیکن درحقیقت یہ نائیلون کی چوٹیاں بال نہیں ہیں۔ دریافت طلب یہ ہے کہ شریعت کی روسے نائیلون کی یہ چوٹیاں بالوں میں ڈالنا جائز ہے یا ناجائز؟
جواب
کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں کوئی دوسری چیز ملانے کی مطلقاً ممانعت ہے خواہ وہ دوسری چیز بال ہویا کچھ اور.......کچھ دوسری احادیث ایسی ہیں جن میں عورتوں کو اپنے بالوں میں انسان کے بال ملانے کی ممانعت کی گئی ہے۔ پھر یہ چیزبھی بحث طلب رہی ہے کہ یہ ممانعت کیوں کی گئی ہے اوراس کی علت کیا ہے؟ نیز یہ کہ اس ممانعت کا درجہ کیاہے؟ کیا ہر حال میں ممنوع ہے، علت پائی جارہی ہو یا نہ پائی جارہی ہو، یا یہ کہ اگر علت موجود نہ ہوتو ممانعت بھی ختم ہوجائے گی؟ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ میں فقہائے امت کے درمیان اختلاف رہاہے۔ آپ خود صاحب علم ہیں اس لیے فتح الباری جلد ۱۰ کتاب اللباس اورنیل الاوطار جلد۶ کتاب النکاح میں یہ بحث مطالعہ کریں۔ جہاں تک میں نے غورکیا ہے اس مسئلہ میں فقہائے احناف کی رائے معتدل رائے معلوم ہوتی ہے۔ ان کا مسلک یہ ہے کہ عورتوں کے لیے اپنے بالوں میں انسانوں کے بال ملانا حرام ہے۔ سوت، ریشم یا جانوروں کے بال ملا کر چوٹی گوندھنا جائز ہے۔ نائیلون کی چوٹیوں کا بھی وہی حکم ہوگا جو سوت اورریشم کی چوٹیوں کا ہے۔ شرعاً اس کوناجائز قرار دینا میرے نزدیک صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ صاحب درمختار لکھتے ہیں
وفی الاختیار ووصل الشعر بشعر الادمی حرام سواء کان شعرھا او شعرغیرھا لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن اللہ الواصلۃ والمستوصلۃ۔ (کتاب الحظر والاباحۃ)
’’اور اختیار(کتاب کا نام ) میں ہے کہ بالوں میں آدمی کے بال ملانا حرام ہے، عام ازیں کہ عورت کے اپنے بال ہوں یا کسی دوسرے انسان کے۔ اس لیےکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ نے واصلہ اورمستوصلہ پرلعنت کی ہے۔‘‘ (واصلہ اس عورت کو کہتے ہیں جو اپنے بالوں میں دوسروں کے بال خود ملائے اور مستوصلہ اس عورت کو کہتے ہیں جو کسی دوسری عورت کے ذریعہ اپنے بالوں میں انسان کے بال ملوائے۔)
علامہ شامی اس کی شرح میں لکھتے ہیں
’’یہ ممانعت اس لیے ہے کہ اس میں دوسروں کو دھوکا دینا ہے اور یہ وجہ بھی ہے کہ دوسرے انسان کے بال ملانے میں جسم انسانی کے ایک جز سے انتفاع لازم آتا ہے(جو ممنوع ہے)۔ لیکن تتارخانیہ میں ہے کہ عورت اگر خود اپنے بال ملائے تو یہ مکروہ ہے۔رخصت صرف اس صورت میں ہے کہ وہ اپنی چوٹیوں میں اضافہ کرنےکے لیے انسان کے بال کے علاوہ کچھ اور ملائے اور یہ امام ابویوسفؒ سے مروی ہےاور خانیہ میں ہے کہ عورت اپنی چوٹیوں میں اونٹ کے کچھ بال ملالے تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
اوپر درمختار میں جس حدیث کا حوالہ ہےوہ بخاری، مسلم، نسائی اور ابن ماجہ میں موجود ہے۔ واصلہ اور مستوصلہ سے مراد کیاہے، یہ بعض دوسری احادیث سے واضح ہوتاہے۔
عن معاویۃؓ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ایما امرأۃ ادخلت فی شعرھا من غیر شعرھا فانما تدخلہ زورا وفی لفظ ایماامرأۃ زادت فی شعرھا شعرا لیس منہ فانہ زورا تزید فیہ۔ (نیل الاوطار بحوالہ مسند احمد)
’’حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو عورت اپنے بالوں میں دوسروں کے بال داخل کرتی ہے وہ دھوکا دینے کو داخل کرتی ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جس عورت نے اپنے بالوں میں دوسروں کے بال زیادہ کیے تو یہ ایک دھوکا ہے جس کا وہ اضافہ کرتی ہے۔‘‘
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس معنی ومفہوم کی حدیث بخاری ومسلم میں بھی مروی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بالوں میں انسان کے بال ملانے کی ممانعت کی گئی تھی۔ عام طورسے فقہا نے یہی سمجھا ہے۔ علامہ ابن حجر لکھتےہیں
وذھب اللیث ونقلہ ابوعبیدۃ عن کثیرمن الفقھاء ان الممتنع من ذلک وصل الشعر بالشعر، واذا ماوصلت شعرھا بغیر الشعر من خرقۃ وغیرھا فلا یدخل فی النھی، واخرج ابودائود بسند صحیح عن سعید بن جبیر قال لا باس بالقرامل، وبہ قال احمد، والقرامل جمع قرمل بفتح القاف وسکون الراء نبات طویل الفروع لین، والمراد بہ ھھنا خیوط من حریر او صوف یعمل ضفائر تصل بہ المرأۃ شعرھا۔ (فتح الباری ج۱۰ کتاب اللباس)
’’ امام لیث اورابوعبیدہ کی نقل کے مطابق بہت سے فقہا کامسلک یہ ہے کہ ممنوع، بالوں میں بال ملانا ہے اوراگر عورت کپڑے کی دھجیاں اوراس کے علاوہ دوسری چیزیں ملائے تو یہ ممنوع نہیں ہے۔اور ابودائود نے سند صحیح سے سعید بن جبیرؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ قرامل کے اضافہ میں کوئی حرج نہیں ہےاو ریہی امام احمدؒ کا قول بھی ہے۔ قرامل ایک پودا ہے جس کی لتیں لمبی ہوتی ہیں اوریہاں اس سے مراد ریشم یااون کے دھاگوں کی وہ چوٹیاں ہیں جنہیں عورتیں اپنے بالوں میں ملاکر گوندھتی ہیں۔ ‘‘
اس عبارت سے معلوم ہواکہ امام احمدؒ کامسلک بھی وہی ہے جو فقہائے احناف کا ہے۔ میرے مطالعہ کی حدتک اس مسئلہ کی نوعیت یہ معلوم ہوتی ہےکہ ایام جاہلیت میں آبرو باختہ اور بدکردار عورتیں، سن رسیدہ ہونے کے بعد اپنے آپ کو جوان اورحسین دکھانے اور مردوں کو لبھانے کے لیے اپنے بالوں میں بال ملاتی، موٹے اور بھدے دانتوں اورابروؤں کو باریک کراتی اور اسی طرح کی دوسری تدابیر اختیار کرتی تھیں۔ نبی ﷺ نے شریف اورپاک باز مسلمان عورتوں کو ان کی روش اختیار کرنے سے منع فرمادیا۔ میرے خیال میں یہ ممانعتیں، سورۃ احزاب رکوع ۴ کی ممانعت وَلَا تَبَرُّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ اِلْاُوْلیٰ (اور اپنے کو دکھاتی نہ پھروجیسا کہ دستور تھا پہلے، جاہلیت کے وقت میں ) کے تحت داخل ہیں۔
آج کی مغربی تہذیب، جاہلی تہذیب کاترقی یافتہ ماڈل ہے اور افسوس یہ ہے کہ اب یہ تہذیب مسلمان گھرانوں میں بھی وبا کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ عریانی، بے پردگی، نمائش حسن اور مسرفانہ زینت وزیبائش کی لے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ہمیں اپنے گھروں اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے گھروں کو اس سے بچانے کی سعی ضرور کرنی چاہیے۔ بہت سی چیزوں کو فتوے کی زبان ناجائز نہیں کہہ سکتی لیکن تقویٰ کا فرمان کچھ اور ہوتاہے۔ (مارچ ۱۹۶۷ء ج۳۸ ش۳)