جواب
آپ نے میری تصحیح کی جو کوشش فرمائی ہے اس کے لیے شکر گزار ہوں ۔ جہاں تک سورۂ النحل والی آیت کا تعلق ہے اس میں استدلال اس عام منظر سے ہے جو ہر دیکھنے والا برسات کے موسم میں دیکھتا ہے۔ اسی عام مشاہدے کی تشریح میں نے کی ہے۔ میرے اصل الفاظ یہ ہیں :
’’یہ منظر ہر سال تمھاری آنکھوں کے سامنے گزرتا ہے کہ زمین بالکل چٹیل میدان پڑی ہوئی ہے، زندگی کے کوئی آثار موجود نہیں ، نہ گھاس پھونس ہے نہ بیل بوٹے، نہ پھول پتی اور نہ کسی قسم کے حشرات الارض۔ اتنے میں بارش کا موسم آگیا۔ زمین کی تہوں میں دبی ہوئی بے شمار جڑیں یکایک جی اٹھیں اور ہر ایک کے اندر سے وہی نباتات پھر برآمد ہوگئی جو پچھلی برسات میں پیدا ہونے کے بعد مرچکی تھی۔ بے شمار حشرات الارض جن کا نام و نشان تک گرمی کے زمانے میں باقی نہ رہا تھا، یکا یک پھر اسی شان سے نمودار ہوگئے جیسے پچھلی برسات میں دیکھے گئے تھے…‘‘
رہا بیالوجی اور علمِ نباتات اور علمِ حشرات کے نقطۂ نظر سے اس مسئلے کا گہرا جائزہ، تو اس کے متعلق آپ کے مشورے کے مطابق میں ان شاء اللّٰہ دوسرے ماہرین سے بھی پوچھوں گا اور آپ سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ خود اپنی معلومات اور اپنے اہلِ علم احباب کی راے اس پہلو سے مجھے بتائیں کہ گھاس کی جڑوں اور حشرات الارض کے متعلق یہ خیال کہ ’’طبعی موت کے بعد ان کا بارش میں جی اٹھنا ممکن نہیں ہے، اور صرف وہی جڑیں اور حشرات دوبارہ زندہ ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نہ کسی شکل میں حیات کی رمق باقی ہو۔‘‘ آیا یہ تجربے اور علمی مشاہدے پر مبنی ہے، یا ا س قیاس پر کہ بہرحال طبعی موت کے بعد کسی چیز کا جی اٹھنا تو غیر ممکن ہے اس لیے جو چیز بھی بارش میں زندگی لیے ہوئے نمودار ہوئی ہے وہ ضرور اپنے اندر کچھ حیات لیے ہوئے سورہی ہوگی؟
صحراے عرب کا وہ حصہ جس کو الربع الخالی کہتے ہیں ، بسا اوقات دس دس سال تک بارش سے بالکل محروم رہتا ہے، اور گرمی کے موسم میں درجۂ حرارت وہاں ۱۲۴ سے۱۴۰ ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ اس پر بھی جب وہاں بارش ہوتی ہے تو صحرا کی ریت پر گھاس اُگ آتی ہے اور حشرات الارض رینگنے لگتے ہیں ۔ یہ بات اس علاقے کے متعدد سیاحوں نے بیان کی ہے۔ ۱۹۵۹ء کے آخر میں جب میں عرب کا سفر کرتا ہوا تبوک پہنچا تو اتفاق سے اُسی روز بارش ہوگئی۔ وہاں کے گورنر اور قاضی نے مجھے بتایا کہ یہ بارش پورے پانچ سال بعد ہوئی ہے۔ اس کے بعد جب میں تبوک سے روانہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہی صحرا جسے آتے ہوئے میں نے راستے میں بالکل سُونا دیکھا تھا، اب اس پر گھاس اُگی ہوئی ہے۔ گاڑی سے اتر کر حشرات الارض کو تلاش کرنے کا مجھے خیال نہیں آیا۔ لیکن گھاس تو میرے سامنے موجود تھی۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ محض مفروضہ ہے کہ۵-۱۰ سال تک جڑیں کسی نہ کسی درجے کی حیات لیے ہوئے اندر ضرور موجود ہوں گی جو بارش میں تازہ ہوگئیں یا فی الواقع ایسا کوئی تجربہ و مشاہدہ ہوا ہے کہ جو جڑیں بارش میں زندہ ہوگئیں وہ وہی تھیں جن میں اس نوعیت کی حیات باقی تھی؟ نیز کیا درحقیقت جڑوں کی طبعی موت اور کسی درجے کی حیات کے درمیان کوئی قطعی خطِ امتیاز سائنس میں معلوم کیا جاسکا ہے؟
یہی سوال حشرات الارض کے بارے میں بھی ہے کہ صحرا کی ریت میں طویل مدت کی خشک سالی اور شدید گرمی کے بعد جو حشرات بارش کے بعد نمودار ہوجاتے ہیں ، آیا ان کے بارے میں یہ تحقیق کیا جاچکا ہے کہ وہ بارش سے پہلے کسی نوعیت کی زندگی لیے ہوئے محض سو رہے تھے یا یہ محض ایک قیاسی مفروضہ ہے؟ ان امور پر اگر آپ کچھ روشنی ڈالیں تو میں تفہیم القرآن میں اس مضمون کے تمام حواشی پر تحقیق کے ساتھ نظرثانی کرسکوں گا۔ اس مسئلے پر اچھی طرح تحقیق ہونی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ بعض نباتات و حیوانات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اعادہِ خلق اسی دنیا کے اندر رکھا ہے تاکہ حیاتِ بعد موت کی نشانی بن سکے۔ اسی وجہ سے قرآن میں جگہ جگہ بارش کے اثر سے مُردہ زمین کے جی اٹھنے کا ذکر کیا گیا ہے اور اسے حیات بعد موت کی دلیل قرار دیا گیا ہے۔ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۶۸ء)