اسلام کی بنیاد توحید ہے اور یہی چیز دنیا کے سارے مذاہب سے ہمیں ممتاز کرتی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ غیرمسلم بھی چاہے وہ دنیا میں مسلمان نہ شمارکیے جائیں، قیامت کے دن مسلم شمارہوں گے جو توحید پرایمان رکھتے تھے اور شرک سے بچتے تھے، خواہ وہ رسالت اورقرآن پرا یمان نہ رکھتے ہوں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف توحید کے ماننے والے ہی کو جنت کا مستحق قراردیا ہے۔مثلاً قرآن میں ہے
’’شرک کے سوا اللہ جس گناہ کو چاہے معاف فرمادے گا۔‘‘
اور توحید ہی ہرنبی کی تعلیم رہی ہے۔ قرآن وسنت کی بیشتر آیات واحادیث ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہیں اور حدیث میں بھی توحید ہی کو اساس قرار دیاگیا ہے۔ مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ اور تمام علماءو مفسرین نے شرک کو توحید کی ضد بتایا ہے۔
میرے کالج کے غیرمسلم ساتھیوں نے دعویٰ کیا کہ ہم میں کے اکثر وبیشتر توحید کے حامل گزرے ہیں، پس وہ سب مسلم تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے علماء نے جو رسالت اور قرآن کے منکر کو اسلام سے خارج قراردیاہے، مذکوربالا دلائل کی روسے اس کا کیا جواز ہے؟اور ہم غیرمسلموں کو کیسے بتائیں ؟ اور متقدین میں اکثر علماء نے صرف توحید کے ماننے والے کو ’مسلم ‘ لکھا ہے۔مولانا عبدالماجد دریا بادی مدیر’صدق‘ نے ۲۰؍ستمبر۱۹۷۴ء کے شمارے میں قادیانیوں کو غیرمسلم قراردیے جانے کو تسلیم نہیں کیا ہےاور پھبتی کسی ہے۔
امید ہے کہ آپ اطمینان بخش جواب دیں گے۔
جواب
آپ کے سوال میں دوچیزیں الجھ گئی ہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ مومن ومسلم ہونے کے لیے نبوت ورسالت اورقرآن پر ایمان لانا ضروری ہے یا نہیں ؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنبوت ختم ہوجانے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے یا نہیں ؟ ان دونوں باتوں کے صحیح جوابات حاصل کرنے کے لیے چند بنیادی باتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ ہمیں یقین کے ساتھ یہ کس ذریعے سے معلوم ہوگا کہ کسی شخص کے مومن ومسلم ہونے کے لیے کن چیزوں پرایمان لانا ضروری ہے۔
آپ چوں کہ اللہ کے فضل سے مسلمان طالب علم ہیں اور آپ نے قرآن وحدیث کا حوالہ بھی دیا ہے۔نیز یہ کہ آپ نے علماء کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس لیے امید ہے کہ آپ یہ تسلیم کرتے ہوں گے کہ اس کا یقینی ذریعہ قرآن مجید اور صحیح احادیث ہیں۔ قرآن اور احادیث میں مسلم ہونے کےلیے جن چیزوں پر ایمان لانے کی تعلیم دی گئی ہے ان پر ایمان لانا ضروری ہوگا، اس کے بغیر کوئی شخص مسلم نہیں ہوسکے گا۔ دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن اور احادیث سے استفادے کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ غالباً آپ بھی تسلیم کریں گے کہ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پورے قرآن کو سامنے رکھا جائے۔کسی مسئلے سے متعلق دوسری آیات کو چھوڑ کر صرف کسی ایک آیت کو سامنے رکھنا غلط طریقہ ہوگا،اسی طرح اگر کسی مسئلے کو متعدد احادیث میں بیان کیاگیا ہے تو سب حدیثوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ کسی ایک حدیث کو لے لینا اور باقی کو چھوڑ دینا غلط طریقہ ہوگا۔
تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کا کوئی ایسا مفہوم ومطلب نکالنا جس کا دوسری آیتوں اوراحادیث سے ٹکرائو ہو، صحیح نہیں ہے۔ ہماری اور آپ کی باتیں اگر ایسی ہوں کہ ایک دوسرے کی ضد ہوجائیں تو یہ کوئی معقول بات نہ ہوگی۔ اب آپ سوچیے کہ کیا خدا اور رسولؐ کا کلام ایسا ہوگا کہ کسی وقت وہ کوئی بات کہہ دیں اور کسی وقت ٹھیک اس کی ضد دوسری بات کہہ دیں۔ خدا اور رسولؐ کا کلام ان باتوں سے پاک ہے۔ ان بنیادی باتوں کو سامنے رکھیے اوراب قرآن اور احادیث کامطالعہ کیجیے۔
آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مومن ومسلم ہونے کےلیے نبوت ورسالت اور قرآن کریم پرایمان لانا ضروری ہے یا نہیں ؟ اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنبوت ختم ہوجانے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے یا نہیں ؟
آپ قرآن اوراحادیث کا مطالعہ کریں تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ جس طرح توحید کی تعلیم سے قرآن بھراہواہے اسی طرح نبوت ورسالت، آخرت، جنت، جہنم اور خدا کی بھیجی ہوئی کتابوں اور فرشتوں پر ایمان لانے کی تعلیم سے قرآن بھراہواہے۔ جس طرح ایک اللہ پرایمان لانے کو ضروری قرار دیاگیا ہے اسی طرح اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں پر،اللہ کی بھیجی ہوئی کتابوں پر،آخرت پر اور فرشتوں پرایمان لانے کو ضروری قرار دیاگیا ہے اور یہ بات بھی قرآن اور صحیح احادیث نے واضح کردی ہے کہ سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ورسول ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔نبوت ورسالت آپ پر ختم کردی گئی ہے۔
میں صرف چند آیتوں کے ترجمے یہاں نقل کرتاہوں۔ آپ قرآن کھول کر ان آیتوں کو پڑھیں۔ سورۂ الاعراف آیت ۱۵۸ میں کہا گیا ہے
’’اے محمد! کہوکہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبرہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کامالک ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتاہے۔ پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبیِ امی پر جو اللہ اوراس کے ارشادات پر ایمان رکھتا ہے اور پیروی اختیارکرواس کی تاکہ تم ہدایت پائو۔‘‘
دیکھیے اس آیت میں ایک اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ دنیا کے تمام انسانوں کو اللہ کے بھیجے ہوئے نبیِ امی یعنی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پربھی ایمان لانے کا حکم دیاگیا ہے، بلکہ آپؐ کی پیروی اختیارکرنے کا بھی حکم دیاگیا ہے۔ اور ہدایت پانے کے لیے اس کو ضروری قرار دیاگیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص آپؐ پر ایمان نہیں لاتا اور آپؐ کی پیروی اختیار نہیں کرتا تو وہ ہدایت یافتہ نہیں ہے۔
سورہ ٔ النساء آیت ۱۳۶کا مطالعہ کیجیے۔ اس میں فرمایاگیاہے
’’اے ایمان لانے والو!(سچے دل سے ) ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسولؐ پرنازل کی ہے اور ہر ا س کتاب پرجو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے انکارکیا وہ گم راہی میں بھٹک کربہت دور نکل گیا۔‘‘
اس آیت میں اللہ پر،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر،قرآن پراور اس سے پہلے اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کے بعد اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اورآخرت کا انکار کرنے والوں کو سخت گم راہ قرار دیاگیاہے۔
سورۂ النساء آیت ۱۵۰۔۱۵۱ کامطالعہ کیجیے
’’جولوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور ایمان وکفر کے درمیان ایک راہ نکالنی چاہتے ہیں، وہ یقیناً کافر ہیں اور کافروں کے لیےہم نے ذلت کا عذاب تیار کررکھا ہے۔‘‘
’’اور جولوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پرایمان لائے اور ان میں سے کسی میں فرق نہ کیا (یعنی سب کو مانا) ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان کے اجر عطاکرے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
سورۂ النساء آیت ۱۷۰پڑھیے
’’اے انسانو! یہ رسول تمہارے پاس، رب کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے۔ پس ایمان لے آئو، تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔اور اگر انکار کرتے ہو تو جان لوکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی۔‘‘
آگے آیت ۱۷۱ میں پھر کہاگیاہے
’’پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پرایمان لائو۔‘‘
سورہ ٔ آل عمران آیت ۱۷۹ میں کہاگیا ہے
’’پس ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولوں پر۔‘‘
سورہ ٔ نور،آیت۶۲ میں ارشاد ہواہے
’’مومن تو دراصل وہی ہیں جو اللہ اوراس کے رسول پردل سے ایمان لائیں۔ ‘‘
سرسری طورپر یہاں ان چند آیتوں کے ترجمے دیے گئے ہیں جن میں تمام رسولوں اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے کا حکم دیاگیا ہے۔ اب آپ خود سوچیے کہ اللہ نے اپنے بھیجے ہوئے تمام رسولوں پراور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت اور قرآن پرایمان لانے کو ضروری قرار دیا ہے یا نہیں ؟
آپ نے سورۂ النساء آیت ۱۵۰ میں یہ بھی پڑھا کہ اللہ نے کسی رسول پرایمان لانے اور کسی پر ایمان نہ لانے کو کفر قراردیا ہے اور ایسے لوگوں کو پکا کافر کہاہے جن کے کفر میں کوئی شک نہیں۔
اب دوسرے سوال کو لیجیے یعنی یہ کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنبوت ورسالت کے ختم ہوجانے کا عقیدہ رکھنا مومن ومسلم ہونے کےلیے ضروری ہے یا نہیں ؟
سورۂ الاحزاب آیت ۴۰ میں فرمایاگیا ہے
’’محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ اور اللہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘
اس آیت میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صراحت کے ساتھ خاتم النبیین کہا گیا ہے، آپؐ پرنبوت کا سلسلہ ختم کردیاگیا ہے اوراس کی تشریح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی حدیثوں میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔یہ حدیثیں بخاری ومسلم سے لے کر حدیث کے تمام صحیح اور مستند ذخیرے میں موجود ہیں اور پوری ملت اسلامیہ اس پر متفق ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ یہ ایسا مسلمہ تسلیم شدہ عقیدہ ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ میں صرف چند حدیثوں کے ترجمے یہاں نقل کرتاہوں۔ بخاری، کتاب المناقب میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا
’’بے شک، میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفاء ہوں گے۔‘‘
مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے
’’مجھے تمام دنیا کے لیے رسول بنایا گیا اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔‘‘
ترمذی کتاب الرویا میں ہے
’’رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی‘‘
ابودائود کتاب الفتن میں ہے
’’میری امت میں تیس کذاب (بڑے جھوٹے) ہوں گے جن میں سے ہرایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا، حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ‘‘
جو شخص بھی سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول مانتا ہے وہ کس طرح یہ سمجھ سکتا ہے کہ آپؐ کے بعد بھی کوئی نبی ہوگا۔ اگر وہ ایسا سمجھتا ہے تو اس کے معنی یہ ہے کہ وہ نعوذباللہ آپ کو جھوٹا سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام علمائے امت اس شخص کو کافر قرار دیتے آرہے ہیں جو آپ کے بعد کسی اور کونبی مانے۔ اسی بنیاد پر مرزا غلام احمد قادیانی بھی دائراسلام سے خارج ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے نبوت کا دعویٰ کیاتھا اور ان کو نبی ماننے والے لوگ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
آپ نے اپنے خط میں جن باتوں کو ’دلائل ‘ کہا ہے ان کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا ضروری ہے۔آپ نے لکھا ہے کہ اسلام کی بنیاد توحید ہے۔ یہ بات اصولی طورپر اپنی جگہ ٹھیک ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اللہ کو ایک مان لینا مسلم ومومن ہونے کے لیے کافی ہے۔ بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص تمام معبود انِ باطل کا انکار کرکے اللہ کو ایک اور حقیقی معبود نہ مان لے، آگے گاڑی چل ہی نہیں سکتی۔ کیوں کہ دوسری تمام چیزیں اللہ کو ایک مان لینے کے بعد ہی مانی جاسکتی ہیں۔ یہی وہ بیج ہے جس سے عقائد واعمال کا ایک پورادرخت وجود میں آتا ہے۔ یہی وہ بنیادی پتھر ہے جس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
آپ نے اوپر قرآن کی آیتوں میں پڑھا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے تمام رسولوں پرایمان لانا اتنا ضروری ہے کہ اگر کوئی شخص مثال کے طورپر حضرت موسیٰ علیہ السلام پرایمان لائے اور عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا انکار کرےتو وہ پکا کافر ہوگا، یا کوئی شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرایمان لائے اور سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کرے تو پکا کافر ہوگا۔اسی طرح کوئی شخص سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے اور حضرت موسیٰ وعیسیٰ علیہماالسلام کی رسالت کاانکار کرے تو پکا کافر ہوگا۔ غرض یہ کہ اللہ کے کسی پیغمبرکوماننا اورکسی کا انکارکرنا کفر ہے۔
ہمیں تمام دنیا سے ممتاز کرنے والی چیزیہ ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی بھیجی ہوئی آخری کتاب بغیر کسی تحریف اور تبدیلی کے موجود ہے۔ آخری رسول سیدنا محمدؐ کی زندگی کا اسوہ ونمونہ اوران کی تعلیمات محفوظ ہیں اور اسلامی تاریخ محفوظ ہے۔
آپ نے لکھا ہے کہ اللہ نے صرف توحید کے ماننے والے ہی کو جنت کا مستحق قرار دیا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہے’’شرک کے سوااللہ جس گناہ کو چاہے گا معاف فرمادے گا۔‘‘
میرامشورہ یہ ہے کہ جہاں یہ آیت ہے اس کو نکال کر پوری آیت پڑھیے اور یہ دیکھیے کہ اس میں کیاکہاگیا ہے۔
سورۂ النساء آیت ۴۸ کاترجمہ یہ ہے
’’بے شک اللہ نہ بخشے گا اس گناہ کوکہ اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیاجائے اور اس کے سوا دوسرےگناہ جس کو چاہے معاف کردے اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اس نے بڑا بہتان باندھا۔‘‘
یہی بات سورۂ النساء آیت ۱۱۶ میں بھی کہی گئی ہے
’’اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (دوسرے گناہ) جس کو چاہے گا معاف کردے گااور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنایا وہ دورکی گم رہی میں جا پڑا۔‘‘
ان دونوں آیتوں میں جو یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں شرک اور کفر کو معاف نہیں فرمائے گا یعنی مشرک اور کافر قیامت میں نہیں بخشاجائے گا۔ چنانچہ اسی سورۂ النساء کی آیت ۵۶میں کہا گیا ہے
’’بے شک جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ان کو ہم عنقریب آگ میں داخل کریں گے، جب جب ان کی کھالیں جل بھن جائیں گی تو ہم دوسری کھالیں بدل دیں گے، تاکہ وہ ہمیشہ عذاب کامزہ چکھتے رہیں، بے شک اللہ زبردست اورحکمت والا ہے۔‘‘
اوراسی سورۂ النساء آیت ۱۶۸۔۱۶۹میں فرمایاگیا ہے
’’بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کرتے رہے اللہ ان کو بخشنے والا نہیں ہے اور نہ انھیں کوئی راستہ دکھائے گا سوائے دوزخ کے راستے کے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بات اللہ کے لیے آسان ہے۔‘‘
غورکیجیے ان آیتوں میں جو بات کہی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں شرک اور کفر کو معاف نہیں فرمائے گا۔اس سے نیچے جو گناہ ہوں گے وہ اس کی مشیت پرموقوف ہیں، جس کے لیے چاہے گا ان نیچے درجے کے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ ان آیتوں میں یہ بات بالکل نہیں کہی گئی ہے کہ جنت کے مستحق کون لوگ ہوں گے؟ آپ نے چوں کہ یہ آیتیں نہیں پڑھی ہیں اس لیے آپ نے یہ لکھا ہے کہ اللہ نے صرف توحید کے ماننے والے ہی کو جنت کا مستحق قراردیا ہے اور پھر آپ نے غلط طورپر آیت کا ایک ٹکڑا دلیل میں پیش کردیا۔جیسا کہ میں نے آپ کو مشورہ دیا ہے، آپ قرآن میں ان آیتوں کونکال کران کا ترجمہ پڑھیے۔ کون لوگ جنت کے مستحق ہوں گے؟ اس کے بیان سے قرآن بھرا ہوا ہے۔ اسی سورۂ النساء آیت ۵۷ میں کہا گیا ہے
’’اورجولوگ ایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے ان کو ہم جنتوں میں د اخل کریں گے،جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
پھر اسی سورۂ النساء کی آیت ۱۲۲ کا ترجمہ پڑھیے
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے توانھیں ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اوروہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنی بات میں سچا ہوگا۔‘‘
ان آیتوں میں بتایا گیا کہ دوچیزیں ہیں جوجنت کا استحقاق پیدا کرتی ہیں یعنی ’ایمان اور عمل صالح۔‘ باقی رہی یہ بات کہ کن کن چیزوں پرایمان لانا ضروری ہے تو اس کا مختصر بیان اوپر آپ کے پہلے سوال کے جواب میں گزرا اور آپ مزید قرآن کا مطالعہ کرکے معلوم کیجیے۔ اسی طرح یہ بات کہ کن کن چیزوں کو قرآن نے عمل صالح قراردیاہے تو اس کے بیان سے بھی قرآن بھراہواہے۔ مثال کے طورپر نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، انصاف اور سچائی ودیانت داری کے عمل صالح ہونے سے آپ بھی واقف ہوں گے اور یہ بھی جانتے ہوں گے کہ قرآن میں ان سب چیزوں کا حکم دیاگیا ہے۔
آپ نے لکھاہے’’ اور توحید ہی ہر نبی کی تعلیم رہی ہے۔‘‘ یہ بات بھی آپ نے قرآن کا مطالعہ کیے بغیر لکھی ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے توحید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اپنی نبوت ورسالت واطاعت کی تعلیم بھی دی ہے اوراسی طرح انھوں نے عمل صالح کی تعلیم بھی دی ہے۔اس کی کچھ معلومات حاصل کرنے کے لیے آپ کم سے کم سورہ ٔ الاعراف رکوع ۸ سے لے کر رکوع ۲۱ تک کا مطالعہ کریں تو آپ کو کسی حد تک یہ معلوم ہوگا کہ انبیانے کن چیزوں کی دعوت اورکن چیزوں کی تعلیم دی ہے۔ کن اعمال کا حکم دیا ہے اور کن اعمال سے روکا ہے؟
آپ نے لکھا ہے مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ آپ نے یہ حدیث جو نقل کی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو شخص صرف لاالٰہ الا اللہ کہہ دے اور اس کو محمد رسول اللہ پر ایمان نہ ہوتو وہ جنت میں داخل ہوگا۔بلکہ اس میں اختصار کے لیے صرف پہلا جملہ کہاگیا ہے اور محمد رسول اللہ کا دوسرا جملہ حذف کردیاگیا ہے۔ مثلاً اسی کلمہ کو لے لیجیے۔ اگر کوئی استاذ کسی بچے سے کہے کہ کلمہ طیبہ لاالٰہ الا اللہ سنائو اور وہ بچہ صرف لاالٰہ الا اللہ کہے اور محمد رسول اللہ نہ کہے توفیل ہوجائے گا۔ اس لیے کہ کلمہ طیبہ صرف لاالٰہ الا اللہ کانام نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ محمد رسول اللہ بھی لگاہواہے۔اسی طرح اگر ہم کسی سے کہیں کہ الحمدشریف پڑھ لو یاقل ہواللہ پڑھ لو تواس کا یہ مطلب نہیں ہوتاکہ بچہ صرف الحمدکہہ لے،یا صرف قل ہو اللہ کہہ لے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پوری سورۂ فاتحہ اور پوری سورۂ اخلاص پڑھے۔ کسی پوری چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بطورعلامت کوئی لفظ کہہ دینا اورباقی کو حذف کردینا، دنیا کی تمام مشہوراورترقی یافتہ زبانوں میں رائج ہے۔ یہ تو زبان اورمحاورے کی بات تھی۔ اب میں ایک حدیث کا ترجمہ پیش کرتاہوں جس سے معلوم ہوگا کہ آپ نے اپنی پیش کردہ حدیث کا جو مطلب سمجھا ہے یا کسی نے آپ کو سمجھادیاہے وہ غلط ہے۔
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اس امت میں سے کوئی یہودی اور کوئی عیسائی جو میرے رسول ہونے کی خبر سن لے اور پھر وہ اس چیز پرجسے دے کر مجھے بھیجاگیا ہے، ایمان لائے بغیر مرجائے تو وہ دوزخیوں میں ہوگا۔‘‘
دیکھیے یہودی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور توریت پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور عیسائی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے بارے میں بھی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی قسم کھاکر یہ بات کہی ہے کہ اگر وہ آپؐ کی خبرسن لیں اور آپؐ کی رسالت اور آپؐ کے پیغام پرایمان لائے بغیر مرجائیں تودوزخ میں داخل ہوں گے۔
اب سوچیے کہ اگر من قال لا الٰہ الا اللہ کا وہی مطلب ہے جو کسی نے آپ کو سمجھایا ہے تو اس کا اس حدیث سے ٹکرائو ہوتاہے یا نہیں ؟حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث مروی ہے جس میں جبریل امین نے آکر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے چند سوالات کیے ہیں اور حضورؐ نے ان کے جوابات دیے ہیں اور یہ صحیح ترین حدیث ہے جو بخاری،مسلم اور حدیث کی دوسری مستند کتابوں میں موجود ہے، اس کے صرف ایک ٹکڑے کا ترجمہ میں پیش کرتاہوں۔
حضرت جبریل نے حضورؐ سے سوال کیا
’’مجھے خبردیجیے کہ اسلام کیا ہے؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو،اگر تم کووہاں تک جانے کی استطاعت ہو۔‘‘
دیکھیے اس حدیث میں مسلم ہونے کے لیے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول ماننا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ آپ کو اللہ کا رسول مانے بغیر اسلام کا وجود ہی نہیں ہوگا۔اب جیسا کہ آپ نے سمجھا ہے کہ حدیث میں بھی توحید ہی کو اساس قراردیاگیاہے اور جو لاالٰہ الا اللہ کہہ دے وہ جنت میں داخل ہوگا توپھراس حدیث کا مطلب کیا ہوگا؟ صحیح بات یہ ہے کہ من قال لا الٰہ الا اللہ کا وہ مطلب نہیں ہے جو آپ کو سمجھایا گیا ہے۔ اگر وہ مطلب لیا جائے تو پورا قرآن اور احادیث کا پورا ذخیرہ بے کار ہوکر رہ جائے گا۔
دین اسلام کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ایک اور پہلو کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ آپ کو قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرکے یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اسلام نے توحید کا جو تصور ہمیں دیا ہے اوراس کی جو تشریح اس نے کی ہے وہ کیا ہے؟ کیا توحید کا مطلب صرف اتنا ہی ہے کہ خد ا کو ایک مان لیاجائے؟ قرآن وحدیث کی صراحتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان تمام صفات کے ساتھ یگانہ ویکتا مانا جائے جن کا ذکر قرآن اورصحیح احادیث میں آیا ہے۔ مثال کے طورپر اللہ ہی کو خالق، مالک، معبود، پوری کائنات کا بادشاہ، حاکم، مقتدر اعلیٰ اور ہادی تسلیم کیاجائے۔ اسی کی ہدایت کو حقیقی ہدایت اور زندگی کے تمام شعبوں کے لیے اسی کے دیے ہوئے احکام وقوانین کو صحیح، برحق اور واجب التعمیل سمجھا جائے۔
اسی طرح آپ کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ قرآن اور احادیث میں کن کن چیزوں کو شرک قراردیا گیا ہے؟ کیا شرک صرف بتوں کی پوجا کو کہتے ہیں ؟ قرآن وحدیث کی صراحتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک صرف بتوں کی پوجا کو نہیں کہتے بلکہ یہ بھی بہت بڑا شرک ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کا یہ مستقل حق تسلیم کیاجائے کہ وہ کسی چیزکو حلال یا حرام، جائز یا ناجائز قراردے سکتا ہے، وہ انسانی زندگی کے لیے اس کی پروا کیے بغیر کہ اللہ کا حکم کیا ہے قانون بناسکتا ہے۔ یہاں تک کہ کھانے پینے کی کسی چیز میں بھی اللہ کے حکم کے خلاف کسی کی اطاعت کی جائے توقرآن نے صراحت کے ساتھ اس کو بھی شرک قراردیاہے۔
سورہ ٔ الانعام آیت ۱۲۲ میں کہاگیا ہے
’’اور جس چیز پر خدا کانام نہ لیا جائے اس کو مت کھائو کیوں کہ اس کا کھانا گناہ ہے اور شیطان اپنے ساتھیوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں اور اگرتم لوگوں نے اس کی اطاعت کی تو بے شک تم بھی مشرک ہوئے۔‘‘
آپ کےکالج کے غیرمسلم ساتھیوں نے جو دعویٰ کیا ہے آپ ان سے اس کی دلیل مانگیے۔ ان میں سے کون اس توضیح کو ماننے والا گزرا ہے جس کی مختصر تشریح اوپر گزری اوران میں سے کون اس شرک سے بچتا رہاہے جس کی مختصر توضیح ابھی آپ کے سامنے آئی۔ محض دعویٰ کرلینے سے تو کوئی بات ثابت نہیں ہوجاتی۔
ہم نے اوپر جو تفصیل پیش کی ہے وہ اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ اپنے غیرمسلم ساتھیوں کو یہ بتاسکتے ہیں کہ قرآن اور احادیث میں کسی شخص کے ’مسلم‘ ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ وہ خدا کو ایک مان لے۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تمام رسولوں کی رسالت پر،آخرت پر اور قرآن کے کتاب اللہ ہونے پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اور اس بات پر ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی و رسول ہیں، آپؐ پرنبوت ورسالت ختم کردی گئی ہے۔ اصل نکتے کی بات یہ ہے کہ آپ کوخود اس بات پرمطمئن ہونا چاہیے کہ اسلام کیا ہے؟ اور اللہ نے کس کو مسلم قراردیاہے؟جس بات سے انسان خود مطمئن ہوتاہے اس کو اچھی طرح سمجھابھی سکتاہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ مولانا عبدالماجد دریابادی کس دلیل کی بناپر قادیانیوں کو غیرمسلم نہیں سمجھتے اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا واقعی وہ قادیانیوں کو ’مسلم ‘ سمجھتے ہیں ؟اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی تو قرآن اور احادیث کی قطعی اورصریح دلیلوں کے سامنے ان کی بات کا کیا وزن ہوگا؟ کچھ بھی نہیں۔ آپ کو لکھ کر خود ان سے یہ دریافت کرنا چاہیے کہ وہ قادیانیوں کو اگرمسلم سمجھتے ہیں تو ان کے پاس اس کی دلیل کیا ہے؟ ہم تو قادیانیوں کو اس دلیل کی بناپر دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ورسول نہیں مانتے۔ وہ یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ آپؐ پرنبوت ورسالت ختم کردی گئی ہے۔ وہ مرزا غلام احمد کو اللہ کا نبی مانتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رسولِ خدا حضرت محمدؐ کو ایک سچا انسان بھی تسلیم نہیں کرتے جب کہ حضورؐ نے صراحت کے ساتھ یہ بات فرمائی ہے کہ آپ آخری نبی ہیں اور آپ پرنبوت ورسالت ختم کردی گئی ہے۔آپ کو کسی نے یہ بھی ایک غلط بتادی ہے کہ ’’متقدمین میں سے اکثر علماء نے صرف توحید کے ماننے والے کو مسلم لکھا ہے۔ ‘‘ (اپریل۱۹۷۵ء، ج ۵۴، ش۴)