ٓج کل کے انتخابات میں کنویسنگ کو ایک لازمی حیثیت حاصل ہے۔ برائے کرم واضح فرمائیں کہ اسلامی انتخابات میں اس کی اجازت ہوگی یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ اس سلسلے میں خود کنویسنگ کےمفہوم کی بھی وضاحت فرمادیں ۔ کیا کنویسنگ اور نجویٰ ایک ہی چیز ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے؟
جواب
چوں کہ سوالات کا تعلق موجودہ الیکشن سے نہیں ہے اس لیے الیکشن ختم ہونے کے بعد ہی جواب دیا جارہاہے۔ آپ کے خط میں دومتعین سوالا ت ہیں، ایک یہ کہ اسلامی انتخابات میں کنویسنگ کی اجازت ہوگی یا نہیں ؟ اور دوسرا یہ کہ کنویسنگ اور نجویٰ دونوں ایک ہی ہیں یا دونوں میں فرق ہے؟ میں اس وقت اسلامی انتخابات کے دیگر مباحث سے صرف نظر کرتے ہوئے انھیں دومتعین سوالات کے جوابات عرض کرتا ہوں ۔
انھی دونوں سوالات کے جواب کے لیے نجویٰ اور کنویسنگ کا مفہوم واضح ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد جوابات بآسانی معلوم ہوجائیں گے۔ لغت اورقرآن کے استعمالات دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ لفظ نجویٰ کی لغوی واصطلاحی حقیقت میں رازداری، پردہ داری، علیٰحدگی وانفراداور سرگوشی کامفہوم داخل ہے۔ میں پہلے لغت کی چند تصریحات پیش کرتاہوں ۔ عربی کے بہت مشہور لغت قاموس میں ہے
نجاہ نجویٰ سارہ والنجویٰ السرکالنجیٰ والمسارّون اسم مصدر۔
اس عبارت کامطلب یہ ہے کہ اس سے نجویٰ کیا۔ یعنی راز دارانہ بات کی اور نجویٰ لفظ نجی کی طرح راز کے معنی میں آتا ہے اور نجویٰ ونجی راز دارانہ بات کرنے والوں کو بھی کہتے ہیں ۔ یہ لفظ اسم بھی ہے اور مصدر بھی۔لفظ نجویٰ کے تحت لسان العرب میں بھی یہی تشریح ملتی ہے۔ مفردات امام راغب میں ہے
ناجیتہ ای ساررتہ۔ النجویٰ اصلہ المصدر وقد یوصف بالنجویٰ فیقال ھو نجویٰ وھم نجویٰ۔
’’میں نے اس سے مناجات کی یعنی پوشیدگی میں بات کی، نجویٰ اصلاً مصدر ہے لیکن کبھی صفت بھی بنتا ہے جیسے کہاجاتا ہے وہ نجویٰ ہے اور وہ نجویٰ ہیں ۔‘‘
حدیث کے مشہور لغت مجمع بحارالانوار میں ہے
ومنہ حدیث علی، دعاہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الطائف وانتجاہ، فقال الناس لقد طال نجواہ، فقال ماانتجیتہ ولکن اللہ انتجاہ ای أمرنی ان اناجیہ۔
’’یہ لفظ حضرت علیؓ کی اس حدیث میں بھی ملتا ہے۔ ان کو نبی ﷺ نے غزوہ طائف کے دن بلایا اور رازدارانہ بات چیت کی۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کی سرگوشی طویل ہوگئی۔ حضورؐ نے فرمایا میں نے ان سے سرگوشی نہیں کی بلکہ اللہ نے کی یعنی اللہ نے مجھے حکم دیا کہ میں ان سے سرگوشی کروں ۔‘‘
بعض اہل لغت کاخیال ہے کہ کسی بات کا ایک شخص یا ایک جماعت تک محدود اور خاص ہونا نجویٰ ہے۔ عام ازیں کہ اس میں سرگوشی اورراز داری پائی جاتی ہو یا نہیں ۔ لیکن یہ قول جمہور اہل لغت اور قرآن کے استعمالات کے خلاف ہے۔لغت کی ان تصریحات کے بعد اب قرآن کی چند آیتیں دیکھیے۔ سورۂ توبہ میں منافقین کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے
اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ سِرَّہُمْ وَنَجْوٰىہُمْ وَاَنَّ اللہَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۷۸ۚ (التوبہ۷۸)
’’کیا وہ علم نہیں رکھتے کہ اللہ ان کے دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اوران کی خفیہ سرگوشیاں بھی، اور بلاشبہ اللہ تمام چھپی ہوئی چیزوں کا جاننے والا ہے۔‘‘
اس آیت میں سر اور نجویٰ میں لطیف فرق کیاگیا ہے ۔سران کے دل میں چھپے ہوئے ایسے راز کو کہاگیا ہے جسے انھوں نے کسی پر ظاہر نہیں کیا اور نجویٰ سے مراد ان کے وہ راز دارانہ مشورے اورمکارانہ سازشیں ہیں جو وہ اسلام، داعیِ اسلام اور مخلص مسلمانوں کے خلاف کیاکرتے تھے۔ سراور نجویٰ دونوں میں پردہ داری اور اخفا ہے۔ اسی لیے آیت کواللہ کے علم غیب پرختم کیاگیا ہے ۔ نجویٰ میں سرگوشی اوراخفا کا جو مفہوم ہے اسی کو مؤکد کرنے کے لیے سورۃ طٰہٰ میں فرمایا
فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوٰى۶۲ (طٰہٰ۶۲)
’’وہ اپنے معاملہ میں آپس میں جھگڑنے لگے اورانھوں نےچھپ کر مشورہ کیا۔‘‘
ٹھیک یہی صیغہ سورۂ انبیاء بھی استعمال ہواہے۔
وَاَسَرُّوا النَّجْوَي۰ۤۖ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا۰ۤۖ ہَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۰ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۳ (الانبیاء۳)
’’چھپاکر مشورہ کیا ظالموں نے، یہ تو تمہاری طرح ایک آدمی ہے پھر کیوں پھنستے ہو اس کے جادو میں، آنکھوں دیکھتے۔‘‘
یہ پوشیدہ مشورہ کیا تھا؟ نبیﷺ اورآپ کی دعوت کے خلاف، رائے عامہ کو خراب کرنے کی سازش! ان آیتوں سے بھی یہ واضح ہواکہ لفظ نجویٰ کے معنی میں پوشیدگی اور رازداری پائی جاتی ہے۔اب انگریزی کے لفظ کنویس (Canvass) کے معنی دیکھیے۔
عبدالحق کی انگریزی اردو لغت اور ڈبسٹر کی ڈکشنری میں درج ذیل معانی ملتے ہیں
(۱) بحث ومباحثہ کرنا (۲) ووٹ یارائے طلب کرنا (۳) کسی مقام کے خیالات وعادات کا پتہ لگانا (۴) لوگوں کی توجہ اپنی طرف منعطف کرنا (۵) کسی شخص کے پاس ووٹ مانگنے جانا یاووٹ کے لیے کسی ضلع کا دورہ کرنا۔
اس انگریزی لفظ کے اصل مفہوم میں رازداری، پردہ داری اور سرگوشی داخل نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ نجویٰ اورکنویسنگ لغوی اوراصطلاحی ہر دولحاظ سے الگ الگ معنی رکھتے ہیں اور دونوں ایک نہیں ہیں ۔ لیکن ایسا بہت ہے کہ لغت اوراصطلاح کی دنیا میں ایک لفظ کی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اورعمل کی دنیامیں کچھ اور۔ مثلاً پروپیگنڈا کے معنی لغت میں تبلیغ کے ہیں، لیکن اب سیاسی عمل کے میدان میں یہ لفظ جھوٹ اور بے جا تشہیر کا مترادف ہو گیا ہے۔ یہی حال کنویسنگ کے لفظ کا ہے۔ آج کنویسنگ نام ہے جھوٹے پروپیگنڈے سے رائے عامہ کو دھوکا دینے کا، نسلی، خاندانی، علاقائی، طبقہ داری اور صوبائی بنیادوں پرووٹ مانگ کر باشندگان ملک میں تفرقہ ڈالنے کا، طرح طرح کی جاہلانہ عصبیتوں کے ابھارنے کا، مختلف طبقوں اورگروہوں کو ایک دوسرے سے نبردآزما کرنے کا۔ گلی گلی گالی گلوج اوردنگا فساد پھیلانے کا، مخالف امیدوار کے عیوب بیان کرکے برسرعام رسوا کرنے کا۔ غرض نشرواشاعت کے تمام ذرائع ووسائل استعمال کرکے اپنی اپنی پارٹیوں اورامیدواروں کے فضائل ومحامد اور مخالف پارٹیوں کے معائب ومثالب پھیلانے کا نام کنویسنگ ہے۔ یہ صورتیں غلط ہیں پھر بھی ان میں سے کسی پر نجویٰ کااطلاق نہیں ہوسکتا۔ہاں مروجہ کنویسنگ کی ایک صورت یعنی مخالف پارٹی یا امیدوار کے خلاف سازش اور درپردہ جوڑتوڑ پرممنوع ومذموم نجویٰ کااطلاق صحیح ہے، لیکن یہ اطلاق اس لیے صحیح ہے کہ اس صورت میں نجویٰ کی حقیقت پائی جاتی ہے ۔ کنویسنگ یا الیکشن سے اس کا کوئی خاص تعلق نہیں ہے ۔ یہ حقیقت جہاں بھی پائی جائے گی اس پر نجویٰ کا لفظ صادق آئے گا۔
میں نے ممنوع ومذموم نجویٰ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہرنجویٰ ممنوع ومذموم نہیں ہوتا۔ آپ کے سوال سے بھی معلوم ہوتاہے اور میں ذاتی طورپر بھی جانتا ہوں کہ ہمارے حلقے میں نجویٰ کا لفظ صرف برے معنی میں مستعمل ہوگیا ہے ۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتاہے کہ محض اختصار سے جائز اور ناجائز، محمود اور مذموم دونوں طرح کے نجویٰ کی چند تصریحات قرآن وحدیث سے پیش کی جائیں ۔ سورۂ نساء میں کہاگیا ہے
لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍؚ بَيْنَ النَّاسِ۰ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ فَسَوْفَ نُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۱۱۴ (النساء۱۱۴)
’’کوئی خیر نہیں لوگوں کے اکثر خفیہ مشوروں اورسرگوشیوں میں، ہاں اگرپوشیدہ طورپر صدقہ کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے، لوگوں کے معاملات کی اصلاح کرنے کے لیےکچھ کہےتو یہ البتہ بھلی بات ہے ۔ اور جو کوئی اللہ کی رضاجوئی کے لیے ایسا کرے گا اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے۔‘‘
اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مسلمان نے چوری کی اور جب اس کا بھانڈا پھوٹ گیا تو چورا ور اس کے خاندان نے درپردہ سازش کی کہ اس کا اتہام ایک یہودی پررکھ دیا جائے اور اس طرح نبیﷺ کی عدالت سے مقدمہ میں اپنے موافق فیصلہ کرالیا جائے۔ اس پس منظر میں آیت کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ اس آیت نے صرف یہی نہیں کہ جائز وناجائز اور محمود ومذموم نجویٰ کو الگ کردیا ہے بلکہ اللہ کی خوش نودی کے لیے صدقہ، امربالمعروف اور اصلاح بین الناس کے معاملات میں نجویٰ پراجر عظیم کی بشارت بھی سنائی ہے۔ ان معاملات میں نجویٰ کی ضرورت کیوں اور کب ہوتی ہے اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، کیوں کہ آیت کی پوری تفسیر مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ اس آیت نے نجویٰ کی دوقسموں کو بڑی وضاحت سے علیحدہ کردیا ہے۔
نجویٰ، تناجی اور مناجات پرسب سے زیادہ سورۂ مجادلہ میں گفتگو کی گئی ہے ۔ یہاں تمام آیتوں کو نقل کرنا موجب طوالت ہے۔ خلاصہ ان آیتوں کا بھی یہی ہے کہ اثم، عدوان اور معصیت رسول سے آلودہ نجویٰ شیطانی فعل ہے اور بروتقویٰ سے مملونجویٰ کی اجازت ہے۔ ان آیتوں میں ایک آیت کی وضاحت ضروری ہے، کہاگیا ہے
اِنَّمَا النَّجْوٰى مِنَ الشَّيْطٰنِ لِيَحْزُنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيْسَ بِضَاۗرِّہِمْ شَـيْـــــًٔا اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۱۰ (المجادلہ۱۰)
’’بے شک نجوی شیطان کی طرف سے ہوتاہے تاکہ وہ مومنوں کو غمگین کرے اور وہ اللہ کے اذن کے بغیر انھیں کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتا اور اللہ ہی پرمومنوں کوبھروسا کرنا چاہیے۔‘‘
اگراس آیت کے سیاق وسباق سے غفلت ہوجائے تو ایسا سمجھا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں مطلقاً نجویٰ کو شیطانی فعل کہاگیا ہے ۔اس اشتباہ کو دور کرنے کے لیے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں تصریح کی ہے کہ یہاں النجویٰ پرال عہد کا ہے یعنی اوپر جس نجویٰ کی مذمت کی گئی ہے اسی کو اس میں شیطانی فعل کہاگیا ہے ۔ خود اس آیت میں شیطانی نجویٰ کی جو علت بیان کی گئی ہے، وہ مذموم نجویٰ کی تعیین کررہی ہے۔ میں یہاں صرف امام رازی کی تصریح نقل کرتا ہوں
انما النجویٰ من الشیطان الالف واللام فی لفظ النجویٰ لایمکن ان یکون للاستغراق، لان فی النجویٰ مایکون من اللہ وللہ، بل المراد منہ المعھود السابق وھو النجویٰ بالاثم والعدوان۔
’’لفظ النجویٰ میں الف لام ناممکن ہے کہ استغراق کے لیے لیاجائے اس لیے کہ نجویٰ کی ایک قسم وہ ہے جو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اوراللہ کے لیے ہوتی ہے بلکہ اس سےمراد وہ نجویٰ ہےجس کی مذمت اوپر گزری یعنی گناہ اور سرکشی والا نجویٰ۔‘‘
بعض احادیث میں، دومسلمانوں کو اس بات سے روکا گیا ہےکہ تیسرے مسلمان کی موجودگی میں الگ ہوکر سرگوشی کریں، لیکن وہیں اس ممانعت کی علت بھی بیان کردی گئی ہے اور وہ یہ کہ اس تیسرے مسلمان کو اس سےتکلیف پہنچے گی اور اسے یہ حرکت بری معلوم ہوگی۔ اس علت کی عدم موجودگی میں یہ ممانعت بھی باقی نہ رہے گی، بلکہ بہت سےمواقع پرجائز یا محمود ومامور معاملات میں نجویٰ لازم ہوتا ہے، وہاں اگر نجویٰ نہ کیاجائے تو مملکتی اورجماعتی مصالح، مفاسد سے بدل جائیں ۔ مثلاً کسی حکومت کے جنگی و دفاعی معاملات، یا کسی جماعت کی مجلس شوریٰ کے اجتماعات، ظاہر ہے کہ اگر ایسے مواقع پرباتیں اور مشورے چند افراد کے درمیان رازدارانہ، نہ ہوتو سخت انتشارپھیل جائے۔
خدااور بندے کے درمیان جونجویٰ اورمناجات ہوتی ہے اس کے محمود ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ خدا ہی کا حکم ہے اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً (پکارواپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے )۔ کوہ طورپر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مخاطبت کا جو شرف بخشا تھا اس کی بناپر ان کا ایک لقب نجی اللہ بھی ہے ۔ یعنی خدا سے سرگوشی کرنے والے۔قیامت میں اللہ تعالیٰ بندۂ مومن سے جو نجویٰ کرے گا اس کا ذکر حدیث میں آیا ہے اوراس حدیث کو حدیث النجویٰ کہتے ہیں ۔
إن رجلا سأل ابن عمر کیف سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی النجویٰ، قال یدنو أحدکم من ربہ حتی یضع کنفہ علیہ، فیقول اعملت کذا وکذا، فیقول نعم، ویقول اعملت کذا وکذا، فیقول نعم، فیقررہ ثم یقول إنی سترت علیک فی الدنیا وأنا أغفرھا لک الیوم (متفق علیہ)
’’ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے پوچھاکہ آپ نے نجویٰ کے بارے میں رسول اللہﷺ سے کیا سنا ہے؟ فرمایا تم میں کوئی اپنے رب سے قریب ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنے رحمت سے اسے ڈھک لے گا۔ پھر فرمائے گا کیا تو نے ایسا کیا اور ایسا کیا؟ بندہ کہے گا۔ ہاں ۔ پھر فرمائے گا تو نے ایسا کیا، ایسا کیا؟ بندہ کہے گا ہاں، وہ سب کا اقرار کرے گا۔ تب اللہ فرمائے گا میں نے دنیا میں تیرے ان جرائم کی پردہ پوشی کی تھی اور آج میں انھیں معاف کرتاہوں ۔‘‘
ان تمام تفصیلات سے معلوم ہواکہ نجویٰ صرف برے معنی میں مستعمل نہیں ہے بلکہ اچھے معنی میں بھی مستعمل ہے، سرگوشی بجائے خود بری چیز نہیں ہے، بلکہ اس میں کہی جانے والی بات اور مقصد اسے خیر یا شر بناتاہے۔
نجویٰ اور کنویسنگ کی اس وضاحت کے بعد آپ کے پہلے سوال کا جواب بھی آسان ہوگیا ہے۔ جہاں تک مروجہ کنویسنگ کے طوفان بدتمیزی کا تعلق ہے، اسلامی انتخابات تو بڑی چیزہیں، غیراسلامی انتخابات میں بھی کم سے کم نظری طورپر اسے صحیح نہیں سمجھا جاتا۔ باقی رہی وہ کنویسنگ جس میں آزاد امیدوار یا کسی پارٹی کا امیدوار لوگوں کے گھر جاکر یا حلقہ انتخاب میں دورہ کرکے ووٹ مانگتا ہے تو اسلامی انتخابات میں اس کی اجازت بھی نہ ہوگی کیوں کہ اسلامی اصول انتخاب میں امیدواری سسٹم ہی صحیح نہیں ہے۔ (اپریل۱۹۶۲ءج۲۸ ش۴)