جواب
نیاز جو خالصتاً اﷲ تعالیٰ کے لیے کی جائے،بالکل جائز اور موجب اجر وثواب ہے۔ اور اگر کوئی انفاق فی سبیل اﷲ کھانے یا کپڑے یا عطیے کی صورت میں اس غرض کے لیے کیا جائے کہ اﷲ تعالیٰ اسے قبول فرما کر ہمارے کسی متوفی عزیز کی مغفرت فرما د ے یا اس انفاق کا ثواب اس عزیز کو بخش دے، تو بجاے خود اس فعل کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔رہا اس کا اس عزیز کے لیے نافع ہونا، تو یہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے،وہ چاہے تو اس کے لیے نافع بنادے ورنہ وہ انفاق کرنے والے کے لیے تو بہرحال نافع ہوگا ہی۔ اگر تلاوت قرآن یا کوئی بدنی عبادت کرکے آدمی یہ دعا کرے کہ اس کا ثواب اس کے کسی متوفی عزیز کو پہنچ جائے تواس میں اختلاف ہے کہ آیا ایصال ثواب کی یہ شکل بھی درست ہے یا نہیں ۔بعض ائمہ کے نزدیک یہ درست ہے اور بعض کے نزدیک درست نہیں ہے۔ میں متعدد شرعی دلائل کی بنا پر مؤخر الذکر مسلک ہی کو ترجیح دیتا ہوں ۔
اگر کوئی مالی یا بدنی عبادت اﷲ تعالیٰ کے لیے کی جائے اور بزرگان دین میں سے کسی کو اس غرض کے لیے اس کا ثواب ایصال کیا جائے کہ وہ بزرگ اس ہدیے سے خوش ہوں اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں ہدیہ بھیجنے والے کے سفارشی بن جائیں ، تو یہ ایک ایسا مشتبہ فعل ہے جس میں جواز وعدم جواز بلکہ گناہ اور فتنے تک کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہوجاتی ہیں ، اور میں کسی پرہیز گار آدمی کو یہ مشورہ نہ دوں گا کہ وہ اپنے آپ کو اس خطرے میں ڈالے۔
رہے وہ کھانے جو صریحاًکسی بزرگ کے نام پر پکائے جاتے ہیں ،اور جن کے متعلق بالفاظ صریح یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں بزرگ کی نیاز ہے،اور جن کے متعلق پکانے والے کی نیت بھی یہی ہوتی ہے کہ یہ ایک نذرانہ ہے جو کسی بزرگ کی روح کو بھیجا جارہا ہے، اور جن سے متعلق ہمارے ہاں طرح طرح کے آداب مقرر ہیں اور ’بے حرمتی‘ کی مختلف شکلیں ممنوع قرار پائی ہیں اور ان نیازوں کی برکات اور فوائد کے متعلق گہرے عقائد پائے جاتے ہیں ،تو مجھے ان کے حرام اور گناہ ہونے بلکہ عقیدۂ توحید کے خلاف ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن ،اگست۱۹۵۲ء)