نسیان کی وجہ سے امانت ضائع ہوجانے کامسئلہ

بکر کو زید نے ایک ہزار روپے دیے کہ وہ یہ رقم لکھنؤ میں فلاں فلاں صاحب کو دے دیں۔ انھوں نے اس کو قبول کیا اور رقم لے لی۔ بکر سے امانت کی وہ رقم ضائع ہوگئی۔ ان کا بیان ہے کہ انھوں نے وہ رقم ایک تھیلے میں رکھی تھی اور ریل گاڑی کے ڈبے میں انھوں نے وہ تھیلا اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ گاڑی لیٹ تھی اور لکھنؤ لیٹ پہنچی۔ انھیں بازار جلد پہنچنا تھا، اسی جلدی میں وہ تھیلا اٹھانا بھول گئے اور گاڑی سے اتر کر بازار چلے گئے۔ وہاں دیر کے بعد یاد آیا۔ وہ واپس اسٹیشن آئےاور اس ڈبے میں تلاش کیا جس میں تھیلا تھا، لیکن وہ نہ ملا۔ اس طرح امانت کی رقم ضائع ہوگئی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بھول جانا ایک غیر اختیاری بات ہے اس لیے بکر پر تاوان واجب نہیں ہے۔ اس نے نہ کوئی خیانت کی ہے اور نہ کوئی تعدی یعنی زیادتی کی ہے۔ آپ فقہ حنفی سےاس کا جواب دیں کہ بکر پرتاوان واجب ہے یا نہیں ؟

جواب

فقہ حنفی کی کتابوں میں جس طرح یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ خیانت کرنے یا تعدی یعنی زیادتی کرنے کی وجہ سے اس شخص پرتاوان واجب ہوگا جس کے پاس امانت رکھی گئی تھی اسی طرح یہ بھی صراحت کے ساتھ لکھا ہواہے کہ اگر اس کی بھول کی وجہ سے امانت ضائع ہوجائے تو اس پر تاوان واجب ہوگا۔

یہ ایک مسلمہ مسئلہ ہے کہ نسیان کی وجہ سے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے یا بندوں کے حقوق ساقط نہیں ہوتے البتہ آخرت کے مواخذ ے سے انسان بچ جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی وقت کی نماز بھول جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا وقت گزرجائے تووہ نماز اگرچہ ضائع ہو جاتی ہے مگر ذمے سے ساقط نہیں ہوتی، اس پر قضا واجب ہے۔ یا اگر کوئی شخص عید کے دن صدقہ ٔ فطر ادا کرنا بھول جائے تو اگرچہ اس کا مقصد فوت ہوگیا لیکن وہ ساقط نہیں ہوگا،اس کو دینا پڑے گا۔ جب اللہ کے حقوق بھول جانے کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتے تو پھر بندوں کےحقوق بدرجہ اولیٰ ساقط نہیں ہوں گے۔ اگر بھول جانے کی وجہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ساقط ہوجایا کریں، ان کی قضا اور تاوان واجب نہ ہو تو ہزاروں حقوق طاق نسیان کی زینت بن جائیں گے او رلوگوں کی بے شمار امانتیں ضائع ہوجائیں گی۔

کتاب الودیعہ میں فقہا نے کئی مثالیں دے کر اس مسئلہ کو واضح کردیا ہے اور ان میں سے ایک جزئیہ تو پوری طرح اس صورت پرمنطبق ہے جو سوال میں درج کی گئی ہے۔ میں پہلے چند عام مثالیں پیش کرتا ہوں اور آخرمیں صورت مسئولہ کے مطابق جزئیہ نقل کروں گا۔

(۱) خرج وترک الباب مفتوحا ضمن ان لم یکن فی الدار احد ولم یکن فی مکان یسمع حس الداخل۔                                           (شامی ج۴ کتاب الایداع ص۷۶۶)

’’وہ نکلا اور دروازہ کھلا چھوڑ دیا توضامن ہوگا۔ اگر اس گھر میں کوئی نہ ہو اور وہ ایسی جگہ نہ ہوجہاں سے گھر میں داخل ہونے والے کی آہٹ سن سکے۔‘‘

عبارت کامطلب یہ ہے کہ کسی کے گھر میں امانت رکھی ہوئی ہے اورامانت دار اپنے گھرکا دروازہ کھلا چھوڑ کر نکل جائے۔ نہ تواس میں کوئی دوسرا محافظ ہو اور نہ وہ خود گھرسے اتنا قریب ہوکہ گھر میں داخل ہونے والے کی آہٹ سن سکے تواس صورت میں اگرامانت ضائع ہوجائے تو اس کو تاوان دینا پڑے گا۔ اس عبارت میں بالقصد دروازہ کھلا چھوڑنے کی قید لگی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص بھول کربھی ایسا کرے اور امانت ضائع ہوجائے تو اس پرتاوان واجب ہوگا۔ آگے کی مثالوں میں نسیان کی صراحت آرہی ہے۔

(۲) رجل دفع الی دلال ثوبا لیبیعہ فقال نسیت ولا ادری فی ای حانوت وضعت یکون ضامناً۔                                            (فتاویٰ قاضی خان علی ہامش فتاویٰ عالمگیریہ ج۳ ص ۳۸۱)

’’کسی نے ایک دلال کو کپڑا فروخت کرنے کے لیے دیا، پھر وہ دلال کہے کہ میں بھول گیا اور نہیں جانتا کہ میں نے اسے کس دکان میں رکھا تھاتو وہ ضامن ہوگا۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ جس دلال کے پاس وہ کپڑا امانت تھا اس نے آکر کہاکہ صاحب وہ کپڑا تو ضائع ہوگیا۔ میں بھول گیا اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کس دکان میں اس کو رکھاتھا اور کہاں سے وہ ضائع ہوا تو اس کا یہ عذر قابلِ سماعت نہ ہوگا اوراس کو تاوان دینا پڑے گا۔

(۳) ولوقال دفنت فی موضع اخر ونسیت مکانھا یضمن۔                        (فتاویٰ عالمگیریہ ج۴)

’’اور اگر امانت دار نے کہا میں نے امانت دوسری جگہ دفن کردی تھی اور میں وہ جگہ بھول گیاتو وہ ضامن ہوگا۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ جس کو امانت دی گئی تھی اس نے کہا کہ میں نے اپنے گھرکے علاوہ کسی اور جگہ اس کو زمین میں گاڑدیاتھا لیکن میں بھول گیا کہ کس جگہ اس کو گاڑا تھا تواس صورت میں اس کو تاوان دینا پڑے گا۔

(۴) وضع ثیابھا مع ثیابہ فی ضفۃ النھر ودخل للاغتسال ولبس ثیابہ ونسی الودیعۃ او سرقت حین انغمس فی الماء یضمن۔                 (فتاویٰ عالمگیریہ)

’’ اس نے امانت کے کپڑوں کے ساتھ اپنے کپڑے نہر کے کنارے رکھے اور غسل کےلیے نہر میں داخل ہواپھر باہر آکر اپنے کپڑے پہنے اورامانت کے کپڑے اٹھانا بھول گیایا جب اس نے پانی میں غوطہ لگایا تو اس اثنا میں وہ کپڑے چوری ہوگئے تو وہ ضامن ہوگا۔‘‘

یعنی دونوں صورتوں میں اس کو تاوان دینا ہوگا۔ ایک یہ کہ اپنے کپڑے پہن کر روانہ ہوگیا اورامانت کے کپڑے اٹھانا بھول گیا اوروہ کپڑے ضائع ہوگئے۔ دوسری یہ کہ جب اس نے پانی میں غوطہ لگایا تواتنے میں کوئی اچکا انھیں لے اڑا۔

(۵) اب یہ آخری جزئیہ صورت مسؤلہ کے بالکل مطابق ہے۔

ولوقال وضعتھا بین یدی وقمت ونسیتھا فضاعت یضمن۔

(رد المختار علامہ شامی ج۴ مطبوعہ مصر۔ کتاب الایداع ص۷۶۴)

’’جس کے پاس امانت ہووہ اگر یہ کہے کہ میں نے امانت کو اپنے سامنے رکھ لیا اورمیں وہاں سے اٹھ گیا اور امانت اٹھانا بھول گیا اور وہ ضائع ہوگئی تو وہ ضامن ہوگا۔‘‘

فتاویٰ عالمگیر یہ میں یہی جزئیہ زیادہ وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔

ولوقال المودع وضعت الودیعۃ بین یدی فقمت ونسیت فضاعت ضمن وبہ یفتی۔                                  (فتاویٰ عالمگیریہ ج۴ ص۳۴۲)

’’جس کے پاس امانت رکھی گئی تھی وہ کہے کہ میں نے امانت کو اپنے سامنے رکھا تھا پھر میں اٹھ کھڑا ہوااور امانت کو بھول گیا اور وہ ضائع ہوگئی تو وہ ضامن ہوگا اور اسی پر فتویٰ ہے۔‘‘

جو مسئلہ پوچھا گیا ہے اس پر یہ جزئیہ پوری طرح منطبق ہے۔ یہاں بھی وہ صاحب یہ کہتے ہیں کہ امانت کی رقم کا تھیلا انھوں نے اپنے پائوں کے پاس رکھ لیا تھا اوراس کو اٹھانا بھول گئے اور وہ غائب ہوگیا۔اس صورت میں ان پر تاوان واجب ہے۔ اگر فقہا یہ فتویٰ نہ دیتے تو ہزاروں اشخاص کی امانتیں مفت ضائع ہوجاتیں۔

طبرانی نے حضرت ثوبانؓ سے یہ جو حدیث روایت کی ہے کہ

رفع عن أمتی الخطأ والنسیان وامااستکرھوا علیہ۔

’’میری امت سے خطا ونسیان اور جبر واکراہ کی بناپر کیے ہوئے کام اٹھا لیے گئے ہیں۔ ‘‘

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غلطی سے  یا بھول کر کسی نے جانی یامالی نقصان پہنچادیا ہوتو اس کا کوئی مواخذہ نہ ہوگا بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ وہ آخرت کے مواخذہ سے بچ جائے گا۔

(مئی ۱۹۷۳ء ج۵۰ش۵)