جواب
آپ کا کہنا بجا ہے کہ ایک کافرانہ نظامِ تمدن وسیاست کے اندر رہتے ہوئے خالص حلال کی روٹی تقریباًمحال ہے،مگر میں نے وسائل رزق کے معاملے میں حلال وحرام کی تمیز پر اپنے مضامین میں بار بار جو زور دیا ہے،اس سے میرا مقصود یہ نہیں تھاکہ حلال ذرائع یہیں کہیں موجود ہیں ۔ لوگ حرام ذرائع کو چھوڑ کر ان کو حاصل کرلیں ۔ بلکہ اس سے میرا مقصود یہ تھا کہ حلال وحرام کی تمیز پیدا ہوجانے کے بعد ایک سچا مسلمان جب اپنے گردو پیش کا جائزہ لے گا، تب اس کو صحیح اندازہ ہوگا کہ اس کفر کے تسلّط کی بدولت وہ کس طرح چاروں طرف گندگیوں اور نجاستوں میں گھر گیا ہے۔ پھر اگر واقعی وہ پاکیزگی کا خواہاں ہو تو اس کے اندر اس نجاست خیز نظام کو مٹانے اور بدلنے کا شدید جذبہ پیدا ہوگا اور وہ ہر آن اس نظام سے سخت نفرت وکراہت کرے گا۔
اس اصولی بات کو سمجھنے کے بعد عملی نقطۂ نظر سے ہمارے لیے اگر کچھ ممکن ہے تو صرف یہ کہ زیادہ حرام کو چھوڑ کر کم حرام یا ملوث بہ حرام رزق کو مجبوراً گوارا کریں ۔خالص حلال کی قید کے ساتھ زندگی کا سامان بہم پہنچنا اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں ہے۔اب یہ آپ کے حالات پر اور آپ کی قوتوں اور صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ عملاً کون سے ذرائع آپ اختیار کرسکتے ہیں جن میں حرام کی آمیزش کم سے کم ہو، اور آپ موجودہ کافرانہ نظام کے بقا واستحکام میں کم سے کم مددگار بنیں ۔ عملاً اس میں کامیابی کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ آپ اپنے معیار زندگی کو بدلنے کے لیے تیار ہوجائیں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ جن کے اندر حلا ل وحرام کی تمیز پیدا ہوچکی ہے،یہ شرط لگاتے ہیں کہ حلال تو ملے،مگر زندگی کا معیار وہی رہے جو حرام خوری کے زمانے میں ہم نے اختیار کیا تھا۔ یہ شرط انھیں مجبوراً اسی حرام خوری میں مبتلا رکھتی ہے۔حلال خوری پر آدمی قائم اسی وقت رہ سکتا ہے جب کہ وہ اس امر کا فیصلہ کرلے کہ کھانا بہرحال حلال ہے،قطع نظر اس سے کہ وہ پلائو ہو یا چٹنی،پہننا بہرحال حلال ہے،خواہ وہ نفیس کپڑے ہوں یا ٹاٹ کا پیوند لگا ہوا گاڑھا۔ (ترجمان القرآن ،ستمبر،اکتوبر۱۹۴۳ء)