نظامِ کفر کی قانون ساز مجالس میں مسلمانو ں کی شرکت

آپ کی کتاب’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ پڑھنے کے بعد یہ حقیقت تو دل نشین ہوگئی ہے کہ قانون سازی کا حق صرف خدا ہی کے لیے مختص ہے، اور اس حقیقت کے مخالف اُصولوں پر بنی ہوئی قانون ساز اسمبلیوں کا ممبر بننا عین شریعت کے خلاف ہے۔مگر ایک شبہہ باقی رہ جاتا ہے کہ اگر تمام مسلمان اسمبلیوں کی شرکت کو حرام تسلیم کرلیں توپھر سیاسی حیثیت سے مسلمان تباہ ہوجائیں گے۔ظاہر ہے کہ سیاسی قوت ہی سے قوموں کی فلاح وبہبود کا کام کیا جاسکتا ہے اور ہم نے اگر سیاسی قوت کو بالکلیہ غیروں کے حوالے ہوجانے دیا تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ اغیار مسلم دشمنی کی وجہ سے ایسے قوانین نافذ کریں گے اور ایسا نظام مرتب کریں گے جس کے نیچے مسلمان دب کر رہ جائیں ۔پھر آپ اس سیاسی تباہی سے بچنے کی کیا صورت مسلمانوں کے لیے تجویز کرتے ہیں ؟
جواب

آپ نے اپنے سوال میں سوچنے کا اندازغلط اختیارکیا ہے۔یہ بات تو آپ کی سمجھ میں آگئی ہے کہ وہ نظام جس میں انسان خود اپنا قانو ن ساز بنتا ہے یا دوسرے انسانوں کو قانون سازی کا حق دیتا ہے،سرے سے غلط ہے۔نیز یہ بات بھی آپ سمجھ چکے ہیں کہ امرِ حق یہی ہے کہ حکم صرف اﷲ کے لیے ہے اور انسان کا کام اس کے حکم کا اتباع کرنا ہے نہ کہ خود واضع حکم بن جانا۔ اب آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ مسلمان جن کے مفاد کی آپ فکر کررہے ہیں ،کس غرض کے لیے ’’مسلم‘‘نامی ایک جماعت بنانے گئے تھے؟ آیا اس غرض کے لیے کہ وہ ا س امرِحق کو جو قرآن سے ثابت ہے دنیا کے سامنے پیش کریں ، اس کو تسلیم کرائیں ، خود اپنی زندگی کو اس پر قائم کریں اور دنیا میں اس کو جاری کرنے کے لیے اپنی پوری قوت صرف کردیں ؟یا اس غرض کے لیے کہ اس کے بالکل برخلاف جو باطل بھی دنیا میں قائم ہوجائے (اورخود ان کی اپنی غفلتوں کی بدولت قائم ہو)اس کی موافقت کریں اور اس کو اپنالیں اور اسے مٹانے کی سعی سے اس لیے گریز کرتے رہیں کہ کہیں اُن کے مفاد کو نقصان نہ پہنچ جائے؟اگر پہلی بات ہے تو مسلمان آج جوکچھ کررہے ہیں غلط کررہے ہیں ، اور ان کا مفاد اگر اس غلطی سے وابستہ ہے تو ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ ایسے مفاد کی پروا کی جائے۔ ایسی صورت حال میں ایک سچے مسلمان کو اپنی قوم کے ساتھ لگ کر جہنم کا راستہ اختیار کرنے کے بجاے امرِ حق کو قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،خواہ اس کی قوم اس کا ساتھ دے یا نہ دے۔ لیکن اگر آپ دوسری بات کے قائل ہیں تو پھر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے،حق کوحق جاننے کے باوجود خلافِ حق طریقے پر اگر محض قومی مفاد کی خاطر آپ جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں ۔
یہ اندیشہ اکثر پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ہم اسمبلیوں سے پرہیز کریں تو ان پر غیرمسلم قابض ہوکر نظامِ حکومت کے تنہا مالک ومتصرف بن جائیں گے، اور اگرنظامِ باطل کے کَل پُرزے ہم نہ بنیں تو دوسرے بن جائیں گے اور اس طرح زندگی کے سارے کاروبار پر قابض ہوکر وہ ہماری ہستی ہی کو ختم کردیں گے، حتیٰ کہ اسلام کا نام لینے والے باقی ہی نہ رہیں گے کہ تم ان سے خطاب کرسکو۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ اندیشے جتنے ہول ناک ہیں ،اس سے زیادہ خام خیالی کے نمونے ہیں ۔ اگر ہم نے یہ کہا ہوتا کہ صرف ایک منفی پالیسی اختیار کرکے مسلمان زندگی کا سارا کاروبار چھوڑ دیں اور گوشوں میں جابیٹھیں ، تو یہ اندیشے ضرورکسی حقیقت پر مبنی ہوتے۔لیکن ہم اس نفی کے ساتھ ساتھ ایک اثبات بھی تو پیش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اس نظام کے ساتھ ساز گاری کرنے کے بجاے دنیا میں نظامِ حق قائم کرنے کے لیے منظم سعی شروع کردیں ۔ دوسری قوموں کے ساتھ اپنے دنیوی مفاد کے لیے کش مکش اور مزاحمت کرنے کے بجاے ان کے سامنے وہ دین حق پیش کریں جس کی پیروی میں تما م انسانوں کی فلاح ہے اور قرآن کے ذریعے سے،سیرتِ رسولؐ کے ذریعے سے، اور اخلاق اسلامی کے ذریعے سے دنیامیں فکری،اخلاقی،معاشی ،تمدنی اور سیاسی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کریں ۔
ہماری اس دعوت کے جواب میں دو صورتیں پیش آسکتی ہیں :
ایک یہ کہ تما م ہندستان کے مسلمان جن کی تعداد دس کروڑ ہے اور جن کے پاس مادی وسائل اور ذہنی اور دماغی قوتوں اور ہاتھ پائوں کی طاقتوں کی کمی نہیں ہے،بیک وقت ہماری اس دعوت کو قبول کرلیں ، ذہنی اور اخلاقی اور عملی تمام حیثیتوں سے اسلام کے سچے داعی بن جائیں ۔اگر ایسا ہوجائے(جس کی بظاہر کوئی توقع نہیں ہے) تو آپ تو یہ اندیشہ کررہے ہیں کہ کچھ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا،اور میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ ہندستان ہی نہیں ،دنیا کا ایک بڑا حصہ آپ کے ہاتھ آجائے گا، ہندستان میں اقلیت اور اکثریت کا جھگڑا دیکھتے دیکھتے ختم ہوجائے گا، ہندستان میں خالص اسلامی حکومت کو قائم ہونے سے کوئی طاقت نہ روک سکے گی ،بہت قلیل مدت کے اندر مسلمان ممالک کی بھی کایا پلٹ جائے گی اور خود وہ قوتیں بھی جو آج ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہیں ،مسخر ہونے سے محفوظ نہ رہ سکیں گی۔
دوسری صورت یہ پیش آسکتی ہے (اور یہی اس وقت متوقع بھی ہے) کہ مسلمانوں میں سے بتدریج تھوڑی تھوڑی تعداد میں پاک نفس اور اعلیٰ درجے کے ذہن رکھنے والے لوگ ہماری اس دعوت کو قبول کرتے جائیں گے اور جب تک صالحین کا یہ گروہ منظم ہوکر ایک طاقت بنے،عام مسلمان اپنے لیڈروں کی پیروی میں وہی کچھ کرتے رہیں گے جو ایک مدت سے کرتے آرہے ہیں اور آج کررہے ہیں ۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ وہ خطرہ پیش نہیں آسکتا جس کا آپ اندیشہ ظاہر کررہے ہیں ۔کیوں کہ غلط کار مسلمانوں کی عظیم الشان اکثریت وہ سارے کام کرنے کے لیے موجود رہے گی جن کے نہ کرنے سے آپ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کا قومی مفاد خاک میں مل جائے گا۔ البتہ اگر یہ سارے کام ہوتے رہیں اور صرف وہی ایک کام نہ ہو جس کی طرف ہم بُلا رہے ہیں اور اگر ہم بھی امرِ حق اور اس کے تقاضوں سے آنکھیں بند کرکے محض قوم اور اس کے مفاد کی فکر میں ان باطل کاریوں کی طرف دوڑ جائیں جو آج اسلام اور مسلم مفاد کے نام سے ہورہی ہیں ، تو یقین رکھیے کہ اسلام کا جھنڈا تو خیر کیا بلند ہوگا،مسلمان قوم اس ذلت وخواری اور اس پستی کے گڑھے سے بھی نہ نکل سکے گی جس میں وہ یہودیوں کی طرح صرف اس لیے مبتلا ہوئی ہے کہ خدا کی کتاب رکھتے ہوئے اس نے اس کتاب کا منشا پورا کرنے سے منہ موڑ ا۔
(ترجمان القرآن، دسمبر۱۹۴۵ء)