نظامِ کفر کی ملازمت

سرکاری ملازمت کی حیثیت کیا ہے؟اس معاملے میں بھی سرسری طور پر میری راے عدم جواز کی طرف مائل ہے مگر واضح دلائل سامنے نہیں ہیں ۔
جواب

جہاں تک انفرادی معاملات کا تعلق ہے،ایک فردِ مسلم اگر کسی فردِ غیر مسلم سے اُجرت یا تنخواہ پر کسی خدمت کے ادا کرنے کا معاملہ طے کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ،بشرطیکہ وہ خدمت براہِ راست کسی حرام سے متعلق نہ ہو۔ لیکن علما کا ایک بڑا گروہ اس بنیادپر حکومت کفر کی ملازمت کو جائز ٹھیرانے کی جو کوشش کرتا ہے ،وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ لوگ اس اُصولی فرق کو نظرا نداز کردیتے ہیں جو ایک فردِ غیر مسلم کے شخصی کاروبار اور ایک غیر اسلامی نظام کے اجتماعی کاروبار میں ہے۔ایک غیر اسلامی نظام تو قائم ہوتا ہی اس غرض کے لیے ہے اور اس کے سارے کاروبار کے اندر ہرحال اور ہرپہلو میں مضمر ہی یہ چیز ہوتی ہے کہ اسلام کے بجاے غیر اسلام، طاعت کے بجاے معصیت، اور خلافت ِ الٰہی کے بجاے خدا سے بغاوت انسانی زندگی میں کارفرما ہو،اور ظاہر ہے کہ یہ چیز حرام اور تمام محرمات سے بڑھ کر حرام ہے۔لہٰذا ایسے نظام کو چلانے والے شعبوں میں یہ تفریق نہیں کی جاسکتی کہ فلاں شعبے کا کام جائز نوعیت کا ہے اور فلاں شعبے کا ناجائز۔ کیوں کہ یہ سارے شعبے مل جل کر ایک بہت بڑی معصیت کو قائم کررہے ہیں ۔اس معاملے کی ٹھیک ٹھیک نوعیت سمجھنے کے لیے یہ مثال کافی ہوگی کہ اگر کوئی ادارہ اس غرض کے لیے قائم ہو کہ عامۃ الناس میں کفر کی اشاعت کرے اور مسلمانوں کو مرتد بناے تو اس ادارے کا کوئی کام اجرت پر کرنا، خواہ و ہ کام بجاے خود حلال قسم کا ہو (مگر اس ادارے کی تقویت اور اس کے کام کو فروغ دینے کے لیے بہرحال ناگزیر ہو)کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں ہوسکتا۔
اس معاملے میں بھی آخرکار مسلمان اضطراروالی حجت پیش کرنے پر اُتر آتے ہیں کہ اگر ہم اس حکومت کی مشینری میں کل پُرزے نہ بنیں گے تو غیر مسلم اس پر قابض ہوجائیں گے اور تمام اقتدار اُن کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔لیکن اس کا جواب وہی ہے جو پہلے مسئلے میں اضطرار کی دلیل پر دیا گیا ہے۔ (ترجمان القرآن، دسمبر۱۹۴۵ء)