جواب
اس سوال کے جواب میں یہ بات پہلے ہی سمجھ لینی چاہیے کہ جب انگریزی حکومت اس ملک میں آئی تھی تو اس وقت سارا قانونی نظام(Legal System) اسلامی فقہ پر قائم تھا۔ انگریزوں نے آکر اس کو یک لخت تبدیل نہیں کیا بلکہ انگریزی حکومت میں سال ہا سال تک اسلامی نظام ہی چلتا رہا۔ انگریز اس کوبتدریج تبدیل کرتے رہے اور رفتہ رفتہ انھوں نے اپنا نظام رائج کیا۔ اب اگر ہم اسلامی نظام قانون کو ازسر نو قائم کرنا چاہیں تو یہ تبدیلی بھی یک لخت نہیں ،بتدریج ہی ہوگی، اور اس کے لیے بہت حکمت کے ساتھ ایک ایک قدم اٹھانا پڑے گا۔اسلامی قوانین اگر مدوّن (codified)نہیں ہیں تو ان کے مدون(codify) کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے۔اسی طرح اسلامی قانون کی شرحیں کثرت سے موجود ہیں ۔ان کو آسانی سے اردو زبان میں منتقل کیا جاسکتا ہے اور آگے نئی شرحوں کا سلسلہ چل سکتا ہے۔
اسی موجودہ ترقی یافتہ دَور میں سعودی عرب میں زنا اور چوری کی سزائیں جاری ہیں اور تجربے نے تمام دنیا کے سامنے یہ ثابت کردیا ہے کہ انھی سزائوں کی وجہ سے سعودی عرب میں جرائم کی اتنی کمی ہو گئی ہے جتنی دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے۔ اب اگر اس دور کے ترقی یافتہ ہونے کے معنی یہی ہیں کہ جرائم میں ترقی ہو تو مغربی قانونی سسٹم پر شوق سے عمل کرتے رہیے۔ لیکن جرائم کا انسداد بھی اگر ترقی کے لیے ضروری ہے تو پھر یہ تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ اسلامی قانون سے زیادہ کارگر کوئی قانون نہیں ہے۔ دراصل اس زمانے کی لادینی تہذیب کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی ساری ہم دردیاں مجرموں کے ساتھ ہیں ۔اسی لیے یہ نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سزائیں وحشیانہ ہیں ۔اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ چوری کرنا کوئی وحشیانہ کام نہیں ہے البتہ اس پر ہاتھ کاٹنا وحشیانہ کام ہے، اور زنا کا ارتکاب تو مغربی تہذیب میں ایک تفریح ہے ہی۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس خیال کا ما ٔخذ کیا ہے کہ اسلامی قانون میں قاضیوں کو قانون شہادت (Evidence Law)کی مدد کے بغیر فیصلہ کرنے کا اختیارحاصل ہے یا کوئی ایسا دستور العمل رہا ہے۔ حالاں کہ خود قرآن نے قانون شہادت کے بہت سے اصول بیان کیے ہیں اور اس کی بیش تر تشریحات حدیث اور خلفاے راشدین کے فیصلوں سے ملتی ہیں ۔ بالخصوص فقہا نے ان اصولوں کو نہایت محنت سے ترتیب دیا ہے اور اسلامی دور میں کوئی ایسا قاضی نہیں گزرا جس نے ثبوت کے بغیر فیصلے صادر کیے ہوں ۔
وکالت کے بارے میں میرے نزدیک صرف اتنی اصلاح درکار ہے کہ قانون کی پریکٹس بند کردی جائے اور وکلا کو اسٹیٹ معاوضہ دے۔اب بھی قانون کا نظریہ یہ ہے کہ وکیل کا اصل کام اپنے موکل کی حمایت کرنا نہیں ہے بلکہ عدالت کو قانون سمجھنے اور منطبق(apply) کرنے میں مدد دینا ہے۔ وکالت کے پیشہ بن جانے کی وجہ سے یہ خرا بی پیدا ہوئی ہے کہ وکیل عدالت کو گمراہ (mislead) کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔مقدمات کو طول بھی دیتے ہیں اور مقدمہ بازی کو بڑھاتے بھی ہیں ۔
بین الاقوامی قسم کے تمام اداروں میں ہم شریک ہو سکتے ہیں ۔ ان کے اندر اگر کوئی چیز بھی ہمارے اصول کے مطابق نہ ہوگی تو ہم اس کی حد تک اپنی الگ پالیسی بنائیں گے اور اسی حد تک ہماری شرکت میں استثنا ہو گا۔ مسلمان ممالک خود اپنی دولت متحدہ (Common Wealth) یا تحالف (confederation) بناسکتے ہیں اور اسلامی اصول کے مطابق باہمی تعلقات کے طریقے مقرر کرسکتے ہیں ۔
اسلامی قانون ساز اسمبلی کے طے کیے ہوئے اجتہادی احکام پر اسلامی عدلیہ نظر ثانی (review) نہیں کرسکتی۔ البتہ اگر وہ احکام قانون ساز اسمبلی کے اختیار سے متجاوز ہوں تو ان کو حدود اختیار سے متجاوز قرار دے سکتی ہے۔
اسلامی ممالک اور مسلمانو ں کو ایک اسٹیج پر لانے کے لیے اختلافات رفع کرنے کی صورت ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ مسلمان ایمان داری کے ساتھ قرآن اور سنت کی ہدایات پر چلنے کے لیے تیار ہوں ۔قرآن کی تأویل اور سنت کی تحقیق میں اختلافات ہوسکتے ہیں ، لیکن وہ مل کر کام کرنے میں مانع نہیں ہوسکتے۔اگر ہم اس اصول کو مان لیں کہ جو شخص بھی قرآن اور سنت کو سند وحجت مان لے اور حضور سرور کائنات ﷺ کے بعد کسی دوسری نبوت کا قائل نہ ہو ،وہ ہماری برادری کا آدمی ہے، تو یہ چیز کسی آدمی کو ہماری برادری سے خارج نہیں کرسکتی کہ وہ قرآن کے معنی ہم سے مختلف سمجھ رہا ہے اور اس کے نزدیک کسی معاملے میں سنت سے کوئی اور بات ثابت ہوتی ہے۔اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جتنی عدالتیں بھی پاکستان کے دستور اور قانون کو واجب الاطاعت قانون مان کر کام کرتی ہیں ،وہ سب ا س ملک کی جائز عدالتیں ہیں ۔اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام عدالتوں کے فیصلے بھی یکساں ہوں ۔ (ترجمان القرآن،نومبر ۱۹۶۱ء)