جواب
قَدْ اَفْلَحَ مَن زَكّٰىہَاo وَقَدْ خَابَ مَن دَسّٰـىہَا ({ FR 2276 }) ( الشمس:۹،۱۰ ) میں نشوونما دینے اور دبانے والے سے مراد انسان کی وہ ’’انا‘‘ یا اس کی وہ خودی (self) یا (ego) ہے جو ’’میرا ذہن‘‘، ’’میری عقل‘‘، ’’میرا دل‘‘، ’’میری روح‘‘، ’’میری جان‘‘، ’’میری زندگی‘‘ وغیرہ الفاظ بولتی ہے۔ یہی ’’انا‘‘ اس ذہن ذی شعور کی مالک بنائی گئی ہے، اس کو یہ ذہن اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ اس کی صلاحیتوں اور قوتوں کو استعمال کرکے اپنی اچھی یا بری شخصیت جیسی بھی چاہے بناے۔ یہ اگر اس ذہن ذی شعور کو صحیح طور پر ترقی دے اور اس کو ٹھیک طریقے سے استعمال کرے تو فلاح پائے گی اور اگر وہ نفسِ امّارہ کی غلامی اختیار کرکے ذہن کی ان بہترین صلاحیتوں کو اس فطری راستے پر نہ بڑھنے دے جس پر چلنے کے لیے ہی یہ صلاحیتیں اس میں پیدا کی گئی ہیں ، اور اس کو زبردستی نفس امّارہ کے مطالبات پورے کرنے کے لیے تدبیریں سوچنے اور چالیں چلنے اور طریقے ایجاد کرنے پر مجبور کرے، اور نَفْسِ لَوَّامَہ کی تنبیہات کو بھی زبردستی دباتی چلی جائے تو یہ نامراد اور ناکام ہوجائے گی۔
(ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۷۱ء)