نقد اور ادھارقیمتوں میں فرق

, ,

زندگی اکتوبر ۱۹۶۸ء میں ’چند زراعتی مسائل ‘ ({ FR 2358 }) کے تحت کچھ سوال وجواب شائع ہوئے تھے ان میں سے ایک سوال یہ تھا

’’ایک زمیں دار غلے کے دام دوطرح کے رکھتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی نقد لے تو ۲۵روپے من اور ادھارلے تو ۳۰روپے من۔ کیا اس طرح کی بیع جائزہے؟‘‘

آپ نے اس کے جواب میں لکھا تھا

’’یہ بیع جائز ہے۔ دونوں صورتوں میں قیمت معلوم ہے۔ اب اگر کوئی شخص اپنی سہولت کے لیے ادھار قیمت پسند کرتا ہے تو اس کو اس کا اختیار ہے اور نقد قیمت پسند کرتا ہے تو اس کا بھی اسے اختیار ہے۔ ان دونوں صورتوں میں کوئی صورت طے کرکے خریدوفروخت ہوتو یہ جائز ہے۔ البتہ اگر کوئی صورت طے نہ ہو اور خریدوفروخت ہوجائے تو یہ جائز نہیں ہے۔‘‘

پھر دسمبر ۱۹۶۸ءکے شمارے میں ایک صاحب کے شبہ کا جواب دیتےہوئے آپ نے لکھا تھا

’’اس کے جائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شریعت نے بائع کو اس کا پابند نہیں کیا ہے کہ وہ نقد اور ادھاردونوں صورتوں میں اپنے مال کے دام یکساں وصول کرے۔‘‘ آپ کا یہ جواب، اس جواب سے بالکل مختلف ہےجو اسی طرح کے سوال کار سائل ومسائل حصہ اول میں دیاگیا ہے۔ اگر کوئی دکان دار نقد خریدنے والے گاہک سے اشیاکی قیمت کم لے اور ادھار لینے والے سے زیادہ تواس کو صریح سود قرار دیاگیا ہے۔ دیکھیے رسائل ومسائل حصہ اول صفحہ ۳۱۲مطبوعہ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی۔

اب ہمیں الجھن یہ پیش آرہی ہے کہ کس جواب کو صحیح سمجھیں ؟ ہمارے ایک رفیق رسائل ومسائل حصہ اول کے جواب کو صحیح سمجھتے ہیں۔ اگرچہ اس میں کوئی دلیل نہیں دی گئی ہے۔ مہربانی کرکے ہمیں بتائیے کہ آپ نے کس بناپر اس کو جائز قراردیا ہے؟

جواب

یہ مسئلہ قدیم زمانے سے مختلف فیہ رہاہے۔ میں نے جس صورت میں اس بیع کو جائز قرار دیاہے۔حنفیہ، شافعیہ،مالکیہ اورجمہورفقہا اس کو جائز ہی قراردیتے ہیں۔ ایک مختصر حدیث میں ہے
عن ابی ھریرۃ نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن بیعتین فی بیعہ (ترمذی،نسائی،احمد)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دوبیعوں کی ممانعت فرمائی ہے۔‘‘
اس حدیث کی تفسیر وتوضیح میں فقہا اور شارحین حدیث نے اپنے اپنے فہم کے مطابق مختلف صورتیں تجویز کی ہیں۔ ان مختلف صورتوں میں ایک صورت یہ ہے کہ بائع خریدار سے کہتا ہے کہ نقد قیمت دوتواس چیز کو میں تم سے چارروپے میں فروخت کرتاہوں اورادھار خریدوتوپانچ روپے میں۔ خریداربغیر کوئی بات طے کیے ہوئے اس چیز کو خرید لیتا ہے۔ بیع مکمل اور لازم ہوجاتی ہے اور وہ چیز لے کر بائع سے جدا ہوجاتاہے، وہ یہ کچھ نہیں بتاتا کہ اس نے وہ چیز نقد قیمت میں خریدی یا ادھار قیمت میں۔ بیع کی اس صورت کو تمام فقہا ناجائز کہتے ہیں۔ حنفیہ اورشافعیہ کے نزدیک یہ بیع اس لیے ناجائز ہے کہ قیمت مجہول ہے یعنی جس وقت بیع لازم اورمکمل ہوئی اس وقت بائع کو کچھ نہیں معلوم کہ اس کی چیز کس قیمت میں فروخت ہوئی اور ایسی صورت میں بیع ناجائز ہوتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خریدار کوئی بات طے کرکے معاملہ ختم کرتا ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ میں نے نقد چار روپے میں اس کو خریدلیا اور دام ادا کردیتا ہے یا وہ کہتا ہے کہ میں نے ادھار پانچ روپے میں اس کو خرید لیا اور وہ اپنی خرید کردہ چیز لے کر رخصت ہوتا ہے۔ اس صورت میں جمہور فقہاء کے نزدیک یہ بیع جائز ہے۔ اس لیے کہ قیمت معلوم ہے اور معلوم قیمت پربیع تمام اور لازم ہوئی ہے۔
قاضی شوکانی نے نیل الاوطار میں اسی صورت کے بارے میں لکھا ہے
وقالت الشافعیۃ والحنفیۃ وزید بن علی والموئیدباللہ والجمھورانہ یجوز لعموم الادلۃ القاضیۃ بجوازہ وھواالظاہر۔ (نیل الاوطار،ج۵،ص۲۵۰)
’’شافعیہ، حنفیہ،زیدبن علی، موید باللہ اور جمہورفقہاء نے کہا ہے کہ یہ بیع جائز ہوگی اس لیے کہ شریعت کی عام دلیلیں اس کے جواز ہی کا فیصلہ کرتی ہیں اور یہی ظاہرہے۔‘‘
قاضی شوکانی کو اس کے جواز پر اتنا شرح صدر حاصل تھا کہ انھوں نے اس مسئلے پرایک مستقل رسالہ مرتب کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں 
وقدجمعنا رسالۃ فی ھذہ المسئلۃ وسمینا ھا شفاء الغلل فی حکم الزیادۃ فی الثمن لمجردالاجل حققنا ھا تحقیقالم نسبق الیہ۔ (نیل الاوطار،ج۵)
’’اور ہم نے اس مسئلے کے بارے میں ایک رسالہ مرتب کیا اور اس میں مسئلے کو اس طرح محقق کیا ہے کہ ہم سے پہلے ایسی تحقیق نہیں کی گئی تھی۔‘‘
’بدایہ المجتہد‘ جلددوم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں امام مالک جمہور سے ایک قدم اور آگے ہیں۔ جمہور نے جواز کی شرط یہ لگائی ہے کہ بیع اسی مجلس میں کسی ایک قیمت پرمکمل اور لازم ہوجائے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ اگر بیع اسی مجلس میں کسی ایک قیمت پرمکمل نہ ہو بلکہ بائع کی طرف سے خریدار کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ دو ایک دن میں سوچ کر کسی ایک قیمت پر بیع کو مکمل اور لازم کرلے تو اس صورت میں بھی یہ بیع جائز ہوگی۔ اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ صرف ایک صورت میں یہ بیع ناجائز ہوگی، وہ یہ کہ نقد یا ادھار کا فیصلہ کیے بغیر بیع مکمل اور لازم کرلی جائے۔ اور جمہورکے نزدیک صرف ایک صورت میں بیع جائز ہوگی۔ وہ یہ کہ نقد یا ادھار کوئی ایک بات طے کرکے اسی مجلس میں معاملہ ختم کرلیا جائے۔امام مالک کے نزدیک یہ بیع اس صورت میں بھی جائز ہوگی کہ ایک ہی مجلس میں بیع تمام نہ ہوبلکہ خریدار بائع سے اختیار لے کر بعد کو دوقیمتوں میں سے کسی ایک قیمت پرخریدنے کا فیصلہ کرے۔
جولوگ اس بیع کوناجائز اور سود کہتے ہیں ان کی دلیل اورپھر جواب دلیل کی لمبی بحث اس مختصر جواب میں چھیڑنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی کو رسائل ومسائل حصہ اول کے جواب پر اطمینان ہوتو اس کو اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ (اگست ۱۹۶۹ء، ج۴۳،ش۲)