خوش قسمتی سے میں بھی آل بہاراجتماع جماعت اسلامی ہند میں شریک تھا۔ مجھے اپنی زندگی میں پہلی بارجماعت اسلامی کی کسی کانفرنس میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا اور خلاف توقع میں بہت زیادہ متاثرہوا۔ یہ جماعت مجھے اپنے خوابوں کی تعبیر اوراپنے دل کی آواز محسوس ہوئی اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک سچی اسلامی تحریک ہے۔ میں نے کوشش کی تھی کہ شہر گیاہی میں آپ سے ملاقات کروں اور اپنے بعض سوالات کے جواب سے تشفی حاصل کروں۔ لیکن وہاں موقع نہیں مل سکا۔ اس خط میں صرف ایک سوال پیش کررہاہوں۔ نماز قصر کن حالتوں میں واجب ہوتی ہے؟ میں نے دیکھا کہ لوگ نماز قصر پڑھ رہے ہیں۔ کیا جب سفر میں دشمن کا کوئی خوف نہ ہو، امن ہی امن ہواور ہر طرح کی سہولت میسر ہو تو ایسی حالت میں بھی نماز میں قصر کیاجاسکتا ہے؟جب کہ اللہ پاک کا حکم قصر کے بارے میں یہ ہے
وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ۰ۤۖ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۰ۭ اِنَّ الْكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا۱۰۱ (النساء۱۰۱)
’’اورجب تم سفرکرو ملک میں تو تم پرگناہ نہیں کہ کچھ کم کرونماز میں اگر تم کوڈرہوکہ کافرتم کوستائیں گے۔البتہ کافر تمہارے صریح دشمن ہیں۔ ‘‘
جواب
فقہائے احناف کے نزدیک ہرقسم کے سفر میں قصرواجب ہے۔ قصر یہ ہے کہ چاررکعت والی نمازدورکعت پڑھی جائے۔نماز مغرب اور نماز فجر میں قصر نہیں ہے۔فقہ حنفی کی رو سے ۴۸ میل کے سفر میں قصر کرنا واجب ہے۔ سورۂ النساء میں دشمنوں سے خوف کی جو شرط ہے وہ محض اظہار واقعہ کے طورپر ہے۔ جس وقت وہ آیت نازل ہوئی تھی اس وقت دشمنوں سے خوف کا زمانہ تھا اسے ظاہر کرنے کے لیے خوف کی قید لگائی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ سفر میں قصر کا حکم دشمنوں کے خوف کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاروں مذاہب فقہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی نیزدیگر مذاہب فقہ ا س پر متفق ہیں کہ سفر میں نمازمیں قصر کا حکم خوف کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت امن میں ہمیشہ نماز قصر پڑھی ہے۔آپ کے بعد خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی سفر میں نما ز قصر پڑھی ہے جب کہ کوئی خوف نہ تھا۔
محض اظہار واقعہ کے لیے شرط کا استعمال قرآن میں دوسری جگہ بھی ہے۔ سورۂ نور کی آیت ۳۳ کامطالعہ کیجیے۔ متعلقہ حصہ کا ترجمہ یہ ہے
’’اور نہ زبردستی کرو اپنی چھوکریوں پربدکاری کے واسطے اگروہ چاہیں بچے رہنا کہ تم کمانا چاہواسباب دنیا کی زندگانی کا۔‘‘
اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا(اگروہ خودپاک دامن رہنا چاہتی ہوں ) ظاہر ہے کہ یہاں یہ شرط محض صورت واقعہ کی تعبیر کے لیے ہے۔ان سے بدکاری کرانے کی ممانعت اس کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ بدکاری کرانا ہرحالت میں حرام ہے خواہ لونڈیاں جبروا کراہ سے یہ کام کریں یا برضا ورغبت۔ اسی طرح کی شرط اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتَنِکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا (اگرتم کوڈر ہوکہ کافر تم کو ستائیں گے) میں ہے۔ یعنی سفر میں نماز میں قصر کیاجائےگا، خوف کی حالت ہویا امن کی حالت۔جولوگ نماز میں قصر کو خوف کے ساتھ مشروط قراردیتے ہیں ان کا قول بالکل شاذ اورناقابل اعتبارہے۔ (مئی ۱۹۸۴ء،ج۷۲،ش۵)