شریعت میں نماز باجماعت کی کیا حیثیت ہے؟یہ واجب ہے، یا سنت مؤکدہ ہے‘ یا واجب بالکفایہ‘ یا سنت مؤکدہ بالکفایہ ہے؟ کن حالات یا عذرات میں اس کے وجوب یا تاکید کی سختی کم ہوجاتی ہے؟یہاں مسجدیں کم اور دور دور ہیں ، لہٰذا اکثر لوگ گھروں میں نماز پڑھتے ہیں ۔ حالاں کہ اگر وہ چاہیں تو تھوڑی سی زحمت گوارا کرکے مسجد میں پہنچ سکتے ہیں ۔ لیکن کوئی تو قافلے کا عذر کرتا ہے ،کوئی اندھیر ی رات کا،کوئی پانی اور کیچڑ اور راستے کی خرابی کا۔ کیا یہ عذر معقول ہیں ؟ بعض لوگ ہیں جو اپنی دکان پر ہی نما زپڑھتے ہیں اور تنہا ہونے کا عذر پیش کرتے ہیں ۔ان میں جماعت کے ارکان اور متفقین بھی ہیں ۔ یہ لوگ اجتماع کرتے رہتے ہیں اور جماعت کا وقت نکل جاتا ہے۔بعد میں فرداً فرداً ادا فرماتے ہیں ۔تحریر فرمایئے کہ یہ سب باتیں کہاں تک درست ہیں ؟
جواب
نماز کے بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہو وہاں کے لوگوں کو مسجد میں حاضر ہونا چاہیے۔ اِلاّ یہ کہ کوئی عذر شرعی مانع ہو۔عذر شرعی یہ ہے کہ آدمی بیمار ہو،یا اسے کوئی خطرہ لاحق ہو،یا کوئی ایسی چیز مانع ہو جس کا شریعت میں اعتبار کیا گیا ہو۔بارش اور کیچڑ پانی ایسے ہی موانع میں سے ہیں ۔ چنانچہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اس حالت میں اذان کے ساتھ أَلاَ صَلَّوا فیِ رِحَا لِکُمْ({ FR 1835 }) کی آواز لگا دیتے تھے، تاکہ لوگ اذان سن کر اپنی اپنی جگہ ہی نماز پڑھ لیں ۔ جماعت کے لوگ اگر اجتماع کرتے رہیں اور نماز باجماعت پڑھنے کے بجاے بعد میں فرداً فرداً نماز پڑھ لیا کریں تو یہ چیز سخت قابل اعتراض ہے،اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ (ترجمان القرآن ، جولائی ۱۹۵۷ء)