نماز کی ہیئت

میں نے ایک دین دار شیعہ عزیز کی وساطت سے مذہب شیعہ کی بکثرت کتب کا مطالعہ کیا ہے۔شیعہ سنی اختلافی مسائل میں سے جو اختلاف نماز کے بارے میں ہے،وہ میرے لیے خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔میں اپنے شکوک آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ تفصیلی جواب دے کر ان کا ازالہ فرمائیں ۔ میرے شبہات نماز کی ہیئت قیام سے متعلق ہیں ۔نماز اوّلین رکن اسلام ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ قیام میں ہاتھ باندھنے یا چھوڑ دینے کے بارے میں ائمۂ اربعہ کے مابین اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ و مالکؒ کا انحصار محض روایات پر تھا۔برعکس اس کے امام جعفر صادق ؒ نے اپنے والد امام باقر ؒ کو،انھوں نے زین العابدینؒ کو اور انھوں نے حسینؓ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ وہ قیام میں کیسے کھڑے ہوتے تھے۔شنیدہ کے بودمانند دیدہ۔({ FR 1635 })
جواب

آپ کا سوال تو صرف نماز کے بارے میں ہے، مگر آپ نے اس کے متعلق اپنی اُلجھن کی جن بنیادوں کا ذکر کیا ہے،وہ دُور تک پہنچی ہوئی ہیں ۔اس لیے ان بنیادوں پر بحث کرنی ناگزیر ہے۔
مثلاًنماز ہی کو لیجیے جس کے بارے میں آپ دریافت کررہے ہیں ۔ اس میں بِنائے وحدت یہ ہے کہ سب مسلمان اﷲ واحد ہی کی عباد ت کرتے ہیں ،اس کے طریق ادا کا ماخذ اسی نماز کو مانتے ہیں جو نبیﷺ نے سکھائی،پانچ وقت کی نماز فرض مانتے ہیں ، ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں ،وضو کو اس کے لیے شرط تسلیم کرتے ہیں ،رکوع،سجدہ، قیام، قعدہ کو اس کی ہیئت کے اجزا مانتے ہیں ،اور اس میں تلاوت قرآن اور اﷲ کا ذکر کرتے ہیں ۔اس بِنائے وحدت کے بعد ان میں اختلافات کن چیزوں میں ہیں ؟ہاتھ کہاں باندھے جائیں ۔ باندھے جائیں یا کھولے جائیں ۔ آمین زور سے کہی جائے یا آہستہ۔امام کے پیچھے فاتحہ پڑھیں یا نہ پڑھیں وغیرہ۔ ان جزوی اُمور میں جتنے بھی مختلف مذاہب ہیں ،ان میں سے ہر ایک اپنے پاس یہ دلیل رکھتا ہے کہ اس کا طریقہ کسی نہ کسی سند کے ساتھ نبی ﷺ سے مروی ہے،اور وہ اپنی سند پیش کرتا ہے۔قطع نظر اس سے کہ کس کی سند ضعیف ہے او رکس کی قوی، دیکھنا یہ ہے کہ ہر ایک کے پاس آخر نبی اکرمﷺ ہی کی سند تو ہے۔ کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ میں حضورؐ کے سوا کسی اور کی سند پر یہ کام کرتا ہوں ۔ پھر آخر کیا مضائقہ ہے اگر ہم ایک طریقے پر (جس پر بھی ہمارا اطمینان ہو)عمل کرتے ہوئے دوسرے کے طریقے کو بھی مبنی برحق سمجھیں اور بِنائے وحدت پر متفق رہیں ؟
آپ کی اُلجھن کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آپ کو کسی نے بالکل غلط باور کرادیا ہے کہ ائمۂ اہل سنت نے مسائل دین کی تحقیق میں نہ اہل بیت کی طرف رجوع کیا،نہ ان سے کوئی مسئلہ پوچھا اور نہ ان سے حدیث کی کوئی روایت لی۔ یہ غلطی حضرات اہل تَشَیُّع نے تو ضرور کی ہے کہ معلومات کے ایک ہی ذریعے( یعنی اہل بیت… جنھیں انھوں نے اہل بیت مانا) پر حصر کرلیا اور دوسرے تمام ذرائع کو چھوڑ دیا۔مگرائمۂ اہل سنت نے یہ غلطی نہیں کی۔ انھوں نے وہ علم بھی لیا ہے جو اہل بیت کے پاس تھا اور وہ بھی لیا جو دوسرے صحابۂ کرامؓ کے پاس تھا، او رپھر پوری چھان بین کے بعد اپنے اپنے طرزِ تحقیق کے مطابق فیصلہ کیا ہے کہ کس مسئلے میں کون سا طریقہ زیادہ صحیح اور معتبر ہے۔
مثال کے طور پر امام ابوحنیفہؒ ہی کو لیجیے۔وہ جہاں دوسرے صحابہ وتابعین سے علم حاصل کرتے ہیں وہاں امام محمد باقر، امام جعفر صادق ؒ، حضرت زید بن علی بن حسینؓ اور محمد بن حنفیہ کے علم سے بھی استفادہ کرتے ہیں ۔یہی حال دوسرے فقہا اور محدثین کا بھی ہے۔ حدیث کی کون سی کتاب ہے جس میں بزرگان اہل بیت کی روایات نہ پائی جاتی ہوں ۔
لیکن یہ کہنا کہ نماز یا کوئی دوسری چیز صرف وہی لی جاتی جو امام جعفر صادقؒ کے پاس تھی،کیوں کہ انھوں نے امام محمد باقر ؒ سے اور انھوں نے امام زین العابدینؒ سے، اور انھوں نے امام حسینؓ سے اور انھوں نے حضرت علیؓ سے اور انھوں نے رسول اکرم ﷺ سے اسے لیا تھا،صحیح نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر اسی ذریعے پر حصر کیوں کیا جائے؟ دوسرے ہزاروں لوگ بھی تو موجود تھے جنھوں نے نمازیں پڑھتے ہوئے اور دوسرے دینی کام کرتے ہوئے سیکڑوں تابعین کو اور انھوں نے سیکڑوں صحابہ کو دیکھا تھا اور ان سب نے نبی ﷺ کو اپنی آنکھوں سے یہی کام کرتے دیکھا تھا۔ آخر ان کو چھوڑنے اور صرف اہل بیت سے تمسک کرنے کی کیا وجہ ہے؟ صَاحِبُ الْبَیْتِ اَدْرٰی بِمَافِیْہِ({ FR 1663 }) کوئی آیت قرآنی یا حدیث تو نہیں ہے کہ اس کی پیروی اختیار کرکے اس نبی کی زندگی کے بارے میں صرف اس کے گھر والوں کے علم پر انحصار کرلیا جائے جس کی زندگی کا ننانوے فی صدی حصہ گھر سے باہر ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے سامنے گزرا ہے اور جس سے ہزارہا آدمیوں کو مختلف احوال ومعاملات میں کسی نہ کسی طور پر سابقہ پیش آیا ہے۔ (ترجمان القرآن، جون،جولائی۱۹۵۲ء)