جواب
نواقضِ وضو کے مسئلے میں آپ کو جو شبہات پیش آئے ہیں ،انھیں اگر آپ حل کرنا چاہیں تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ شریعت میں جن جن باتوں سے وضو کے ٹوٹنے اور تجدید وضو لازم آنے کا حکم لگایا گیا ہے پہلے ان سب کو اپنے ذہن سے نکال دیجیے،پھر خود اپنے طورپر سوچیے کہ عام انسانوں کے لیے(جن میں عالم اور جاہل،عاقل اور کم عقل،طہارت پسند اور طہارت سے غفلت کرنے والے،سب ہی قسم کے لوگ مختلف درجات وحالات کے موجود ہیں ) آپ کو ایک ایسا ضابطہ بنانا ہے، جس میں حسب ذیل خصوصیات موجود ہوں :
(۱) لوگوں کو بار بار صاف اور پاک ہوتے رہنے پرمجبور کیا جائے اور ان میں نظافت کی حس اس قدر بے دار کردی جائے کہ وہ نجاستوں اور کثافتوں سے خود بچنے لگیں ۔
(۲) خدا کے سامنے حاضر ہونے کی اہمیت اور امتیازی حیثیت ذہن میں بٹھائی جائے تاکہ نیم شعوری طور پر آدمی خود بخود اپنے اندر یہ محسوس کرنے لگے کہ نماز کے قابل ہونے کی حالت دنیا کی دوسری مشغولیتوں کے قابل ہونے کی حالت سے لازماًمختلف ہے۔
(۳) لوگوں کوا پنے نفس اوراس کے حال کی طرف توجہ رکھنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ وہ اپنے پاک یا ناپاک ہونے، اور ایسے ہی دوسرے احوال سے جو اُن پر وارد ہوتے رہتے ہیں ، بے خبر نہ ہونے پائیں اور ایک طرح سے خود اپنے وجود کا جائزہ لیتے رہیں ۔
(۴) ضابطے کی تفصیلات کو ہر شخص کے اپنے فیصلے اور راے پر نہ چھوڑا جائے بلکہ ایک طریقِ کار معین ہوتاکہ انفرادی طورپر لوگ طہارت میں افراط و تفریط نہ کریں ۔
(۵) ضابطہ اس طرح بنایا جائے کہ اس میں اعتدال کے ساتھ طہارت کا مقصد حاصل ہو،یعنی نہ اتنی سختی ہو کہ زندگی تنگ ہوکر رہ جائے اورنہ اتنی نرمی کہ پاکیزگی باقی نہ رہے۔
ان پانچ خصوصیات کو پیشِ نظر رکھ کر آپ خود ایک ضابطہ تجویز کریں اور خیال رکھیں کہ اس میں کوئی بات اس نوعیت کی نہ آنے پائے جس پر وہ اعتراضات ہوسکتے ہوں جو آپ نے تحریر فرمائے ہیں ۔
اس قسم کا ضابطہ بنانے کی کوشش میں اگر آپ صرف ایک ہفتہ صرف کریں گے تو آپ کی سمجھ میں خود بخود یہ بات آجائے گی کہ ان خصوصیات کو ملحوظ رکھ کر صفائی وطہات کا کوئی ایسا ضابطہ نہیں بنایا جاسکتا جس پر اُس نوعیت کے اعتراضات وارد نہ ہوسکتے ہوں جو آپ نے پیش کیے ہیں ۔آپ کو بہرحال کچھ چیزیں ایسی مقرر کرنی پڑیں گی جن کے پیش آنے پر ایک طہارت کو ختم شدہ فرض کرنا اور دوسری طہارت کو ضروری قرار دینا ہوگا۔ آپ کو یہ بھی متعین کرنا ہوگا کہ ایک طہارت کی مدت قیام(duration) کن حدود تک رہے گی اور کن حدود پر ختم ہوجائے گی۔اس غرض کے لیے جو حدیں بھی آپ تجویز کریں گے، ان میں ناپاکی ظاہر اور نمایاں اور محسوس نہ ہوگی،بلکہ فرضی اور حکمی ہی ہو گی اور لامحالہ بعض حوادث ہی کو حد بندی کے لیے نشان مقرر کرنا ہوگا۔پھر آپ خود غور کیجیے کہ آپ کی تجویز کردہ حدیں ان اعتراضات سے کس طرح بچ سکتی ہیں جو آپ نے تحریر فرمائی ہیں ۔
جب آپ اس زاویۂ نظر سے اس مسئلے پر غور کریں گے تو آپ خود بخود اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ شارع نے جو ضابطہ تجویز کردیا ہے وہی ان اغراض کے لیے بہترین اور غایت درجے معتدل ہے۔اس کے ایک ایک جزئیے کو الگ الگ لے کر علت ومعلول اور سبب و مسبّب کا ربط تلاش کرنا معقول طریقہ نہیں ہے۔دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا بحیثیت مجموعی ان اغراض ومصالح کے لیے جواوپر بیان ہوئی ہیں ،اس سے بہتر اور جامع تر کوئی ضابطہ تجویز کیا جاسکتا ہے؟لوگوں کو احکامِ وضو میں جو غلط فہمی پیش آتی ہے ،اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اُس بنیادی حکمت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جو بحیثیت مجموعی ان احکام میں ملحوظ رکھی گئی ہے، بلکہ ایک ایک جزوی حکم کے متعلق یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ فلاں فعل میں آخر کیا بات ہے کہ اس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی ضرب آخر کس طرح شکست وضو کا سبب بن جاتی ہے۔ (ترجمان القرآن ، جنوری،فروری۱۹۴۴ء)