نکاح سے متعلق بعض مسائل

 ہفت روزہ المسلمون میں ’ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء‘کا ایک فتویٰ شائع ہوا ہے۔ اس میں مسافر کے لیے ایک ایسے نکاح کو جائز قرار دیاگیا ہے جس میں اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے وطن واپس جانے لگے گا تو بیوی کو طلاق دے دے گا۔ میں اس فتویٰ کی فوٹو اسٹیٹ کاپی بھیج رہا ہوں۔ اس فتویٰ کی وجہ سے ہم لوگ ذہنی انتشار میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ایسے نکاح اور نکاح متعہ میں آخر فرق کیا ہوا؟ دونوں کا مقصد تو ایک ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس فتویٰ میں ایک آیت بھی پیش کی گئی ہے اور ایک حدیث بھی۔ آپ اس کی توضیح کردیں تو ہم لوگوں کو ذہنی سکون حاصل ہوگا۔

جواب

 آپ لوگ اگردوباتیں ذہن نشین کرلیں تو جواب کے سمجھنے میں آسانی ہوگی اور شاید ذہنی سکون بھی حاصل ہوگا۔

ایک بات یہ ہے کہ جن چیزوں کاتعلق الفاظ اوراعضا وجوارح سے ہوتاہے ان میں صرف نیت پرکوئی شرعی حکم نہیں لگتا اورنہ وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں۔ مثلاً نماز کی صرف نیت سے نماز وجود میں نہیں آتی۔ نکاح کی صرف نیت کرنے سے نکاح نہیں ہوگا۔ طلاق کی صرف نیت سے طلاق نہیں پڑتی۔ اسی طرح جو چیزیں شرعاً حرام وناجائز ہیں، صرف ان کے ارادے اور نیت سے کوئی شرعی حکم نہیں لگ سکتا۔ شراب پینے کی نیت سے کوئی شخص شرابی قرار نہیں دیاجاسکتا اورنہ ہی اس پر حد جاری کی جاسکتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ فتویٰ اورتقویٰ، رخصت اورعزیمت الگ الگ چیزیں ہیں۔ اگر کوئی چیز فتویٰ کی روسے جائز ہو تو ضروری نہیں کہ تقویٰ کے لحاظ سے بھی درست ہو۔

آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ دارالافتا ریاض (جس کے سرپرست محترم شیخ عبداللہ بن باز ہیں ) نے جو جواب دیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ صحیح ہے بلکہ بہت محتاط ہے۔ نکاح ان چیزوں میں سے ہے جن کا انعقاد الفاظ سے ہوتا ہے۔ ان کے انعقاد میں نیت فیصلہ کن چیز نہیں ہے۔ جیسے الفاظ استعمال کیے جائیں گے اسی کے لحاظ سے حکم لگے گا۔اگر الفاظ غلط ہیں تو نکاح غلط ہوگا اور اگر صحیح ہیں تو صحیح ہوگا۔

سائل نے سوال یہ کیا ہےکہ

’’اگر کوئی شخص سفر کرے اور کچھ مدت تک اس کو وطن سے دور رہنا پڑے، نیز یہ کہ وہ نکاح پر مضطر ہوجائے تو کیا یہ جائز ہوگا کہ وہ اس ارادے سے نکاح کرے کہ جب وطن واپس جائے گا تو بیوی کو طلاق دے دےگا؟‘‘

دارالافتا نے جو جواب دیا ہے اس کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے نکاح کی غرض وغایت اور اس کی اصل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لکھا گیا ہے کہ نکاح کی اصل یہ ہے کہ وہ مطلق ہو، محدود وقت کے لیے نہ ہو۔ اس کی غرض وغایت میاں بیوی کے درمیان مودت ورحمت کا رشتہ پیدا کرنا ہے تاکہ گھر بسے اور زندگی کی گاڑی اچھی طرح چلے۔ دلیل کے طورپر سورۂ روم کی آیت نمبر ۲۱ پیش کی گئی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے

’’اوراس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو۔ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکرکرتے ہیں۔ ‘‘

اب اگر کوئی شخص وقت کی تحدید کے ساتھ نکاح کرتا ہے یا اس کی نیت کرتا ہے تو یہ بات نکاح کی غرض وغایت اوراس کی اصل کے خلاف ہے۔

اس تمہید کے بعد جو فتویٰ دیاگیا ہے وہ یہ ہے

’’اگر نکاح کے وقت یہ شرط لگائی گئی ہو کہ یہ کچھ مدت کے لیےہے یا نکاح سے پہلے یہ بات طے ہوئی ہو اور اسی طے شدہ بات پر نکاح ہوا ہو تو یہ ائمہ اربعہ کے نزدیک باطل ہوگا۔ کیوں کہ یہ نکاح متعہ ہوگا جو حرام ہے۔

اگر نکاح کے وقت کسی مدت کی شرط نہ لگائی گئی ہو اور نہ نکاح کرنے والے نے اپنی نیت کا ذکر کسی سے کیا ہو تو یہ نکاح امام ابوحنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک جائز ہے اور امام مالکؒ او ر امام احمدؒ اور علماء کی ایک جماعت کے نزدیک مکروہ ہے۔ اس لیے کہ اگرچہ نکاح کے وقت لفظاً کسی مدت کا ذکر نہیں کیاگیا ہے لیکن جو نیت اس نے کی ہے وہ روح نکاح کے خلاف ہے لیکن عقد نکاح صحیح ہے۔‘‘اخیرمیں متعہ کی حرمت پرحدیث پیش کی گئی ہے۔

اب آپ لوگ غورکرلیں کہ یہ کتنا محتاط فتویٰ ہے۔ اس فتویٰ میں لکھاگیا ہے کہ اس طرح کا نکاح امام احمدؒ کے نزدیک مکروہ ہے لیکن ابن قدامہ نے المغنی میں کراہت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اس کی عبارت یہ ہے

وان تزوجھا بغیر شرط الا ان فی نیتہ طلاقھا بعد شھر أو إذا انقضت حاجتہ فی ھذا البلد فالنکاح صحیح فی قول عامۃ اھل العلم                                (المغنی ج۶،ص۶۴۵)

’’اور اگر وہ بغیر شرط کے اس سے نکاح کرے لیکن اس کی نیت یہ ہو کہ ایک ماہ بعد یا جب اس کی ضرورت اس شہر میں پوری ہوجائے گی طلاق دے دے گا تو یہ نکاح جمہور اہل علم کے نزدیک صحیح ہے۔‘‘

باقی رہی یہ بات کہ اس طرح کے نکاح اور متعہ میں کیا فرق ہے؟ تو ان دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق یہ ہے 

زیر بحث نکاح چوں کہ صحیح ہے اس لیے نکاح صحیح کے تمام احکام اس پر عائد ہوں گے۔ مثلاً طلاق کے بغیر یہ نکاح ختم نہ ہوگا۔ مطلقہ کو دوسرے نکاح کے لیے عدت گزارنی پڑے گی۔ اگر بچہ ہوا تو وہ صحیح النسب ہوگا۔ اس کی پرورش کے اخراجات اس کے باپ کے ذمہ ہوں گے۔ وہ بچہ اپنے باپ کا وارث ہوگا۔ ا ور نکاح متعہ چوں کہ حرام ہے، اس لیے اس پر نکاح صحیح کے احکام عائد نہیں ہوں گے۔ اس میں طلاق کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مدت ختم ہونے کے بعد نکاح آپ سے آپ ختم ہوجاتا ہے۔ عورت پرعدت بھی نہیں ہے۔                                                (دسمبر۱۹۸۵ء ج۳ ش۶)