نکاح میں ولی کی شرط اور اس کا اختیار

نکاح کے لیے ولی کی شرط اور اس کے اختیار سے متعلق بعض سوالات پیش خدمت ہیں ۔ ان کا جواب مطلوب ہے۔ ۱- کیا مسلمان عورت جو عاقلہ اور بالغہ ہے اس کا ولی کسی ایسے شخص سے اس کا نکاح کرسکتا ہے جسے وہ ناپسند کرتی ہے۔ کیا اس طرح کی لڑکی کو اس کی مرضی کے خلاف نکاح پر مجبور کرنے کا ولی کو اختیار حاصل ہے؟ ۲- کیا کسی مسلمان عورت کے لیے جو بالغہ عاقلہ ہے اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے نکاح کرلے، چاہے ولی اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے۔ باپ یا ولی کی مرضی کے خلاف جو نکاح ہو اس کا کیا حکم ہے؟ ۳- کیا کسی نابالغہ کے باپ یا ولی کو اس کا حق حاصل ہے کہ بلوغ سے پہلے ہی اس کا نکاح کردے؟ اس نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا بلوغ کے بعد اس نکاح کو باقی رکھنا لڑکی کے لیے ضروری ہے؟ ۴- ولی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ یہ ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے، اس میں شریعت کا نقطۂ نظر وضاحت سے آنا چاہیے۔
جواب

ذیل میں آپ کے سوالات کے سلسلے میں شریعت کا نقطۂ نظر واضح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
۱- بخاری، مسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
لاَ تنکح الأ یّم حتی تستأمر ولاَ تنکح البکر حتی تستأذن قالوا یا رسول اللّٰہ کیف اذنھا قال ان تسکت۔ ۱؎
’ایّم‘ (بیوہ یا مطلقہ) کا نکاح اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ اس سے مشورہ نہ کرلیا جائے اور دو شیزہ کا نکاح اس وقت ہوگا جب کہ اس سے اجازت حاصل کرلی جائے۔ دریافت کیا گیا کہ دو شیزہ اجازت کیسے دے گی؟ فرمایا کہ وہ سکوت اختیار کرے (تو یہ اس کی جانب سے اجازت ہے)۔
حدیث میں ’ایّم‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کے معنی ہیں وہ عورت جس کا شوہر نہ ہو، چاہے وہ باکرہ ہو یا غیر باکرہ۔ یہ اس مرد کے لیے بھی بولا جاتا ہے جس کے بیوی نہ ہو۔۲؎ یہاں یہ غیر باکرہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس لیے کہ ایک اور حدیث میں اس کی جگہ لفظ ’ ثیّب‘ آیا ہے۔ رسول اللہؐ کا ارشاد حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نقل فرماتے ہیں ۔
الثیب احق بنفسھــا من ولیھــا والبــکر تستأمــر و اذنھـــــا سکوتھـــا ۳؎
’ثیب‘ اپنے نفس (نکاح) کے معاملہ میں اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اور باکرہ کی رائے لی جائے گی اوراس کی خامشی اس کی اجازت ہوگی۔
ان احادیث میں أیّمْ اور ثیّب کے الفاظ غیر باکرہ کے لیے آئے ہیں اور ’بکر‘ کے معنی دوشیزہ اور باکرہ کے ہیں ۔ ان احادیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ ’ ثیّب‘ یا غیر باکرہ کو اپنے نکاح کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق اس کے ولی سے زیادہ ہے۔ اس کا نکاح اسی وقت اس کا ولی کرسکتا ہے جب کہ اس کی رضا مندی حاصل ہو۔
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ ’ ثیّب‘ یا غیر باکرہ کا نکاح اس کی مرضی سے ہوگا۔ ولی اسے مجبور نہیں کرسکتا۔ لیکن باکرہ اور دو شیزہ کے متعلق امام شافعی اور امام احمد وغیرہ کی رائے ہے کہ اس سے اجازت حاصل کرنا پسندیدہ تو ہے لیکن اولیاء میں باپ اور دادا کو ان کی شفقت و محبت اور تعلقِ خاطر کی وجہ سے یہ حق حاصل ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر بھی اس کا نکاح کردیں ۔
اس معاملے میں امام ابو حنیفہؒ، امام اوزاعی اور بعض دوسرے اصحاب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بالغہ کا نکاح، چاہے وہ ثیّب ہو یا باکرہ اس کی مرضی ہی سے ہوگا ثیّب کی طرح باکرہ کو، جو بالغہ ہے، مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ہدایہ میں ہے:
ولا یجوز للولی اجبار البکر البالغۃ علی النکاح ۲؎
ولی کے لیے جائز نہیں ہے کہ دوشیزہ کو جو کہ بالغہ ہے نکاح پر مجبور کرے۔
اوپر جو احادیث گزر چکی ہیں ان کی اور بعض دوسری ہم معنی احادیث کی بنا پر فقہاء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو عورت ’ ثیب‘ ہے اس کا نکاح اس کا ولی اسی وقت کرسکتا ہے جب کہ وہ صاف الفاظ میں اپنی آمادگی کا اظہار کرے۔ علامہ نوویؒ کہتے ہیں :
و اما الثیب فلا بد فیھا من النطق بلا خلاف سواء کان الولی ابا او غیرہ ۳؎
جہاں تک ’ثیب‘ کا تعلق ہے اس کا اپنی زبان سے اپنی آمادگی کا ظاہر کرنا ضروری ہے (اس کا سکوت کافی نہیں ہے) ولی چاہے باپ ہو یا کوئی دوسرا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
باکرہ شرم و حجاب کی وجہ سے صراحت کے ساتھ اپنی مرضی کا اظہار نہیں کرسکتی، اس لیے حدیث میں کہا گیا ہے کہ ’فان سکتت فقد رضیت‘ یعنی اگر وہ سکوت اختیار کرلے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ راضی ہے۔ سکوت کے متعلق ایک رائے یہ ہے کہ یہ بات صاف معلوم ہونی چاہیے کہ سکوت رضا مندی کی دلیل ہے۔ لیکن جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہے قرائن سے اس کا پتہ چل جاتا ہے کہ سکوت میں آمادگی پائی جاتی ہے یا نہیں ؟ اگر وہ مسکرا دے یا کوئی ہدیہ قبول کرلے تو سمجھا جائے گا کہ اسے اتفاق ہے، لیکن اگر دریافت کرنے پر رونے لگے یا چہرہ سے ناگواری کا اظہار ہو رہا ہو تو اسے عدم اتفاق خیال کیا جائے گا۔ بہرحال اس کے اندر آمادگی نہ پائی جائے یا وہ انکار کردے تو فقہ حنفی کی رو سے اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی تائید حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
الیتیمۃ تستأمر فی نفسھا فان صمتت فھو اذنھا و ان ابت فلا جواز علیھا ۱؎
یتیم لڑکی (جو بالغ ہوچکی ہے) اس کی ذات کے معاملے میں (یعنی نکاح کے معاملے میں ) رائے لی جائے گی۔ اگر وہ خاموش ہوجائے تو یہ اس کی اجازت ہوگی۔ اگر انکار کردے تو اس پر کسی کو کوئی اختیار نہ ہوگا۔
یہاں ’ یتیمۃ‘ سے مراد وہ لڑکی ہے جو یتیم تھی اور اب بالغہ ہے۔ اس لیے کہ نابالغہ کے احکام دوسرے ہیں ۔ اس سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ۲؎
اجازت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جس شخص سے نکاح کا ارادہ ہو، اس کی دینی، اخلاقی، سماجی اور معاشی حیثیت کے بارے میں ٹھیک ٹھیک معلومات اسے فراہم کی جائیں ۔ تاکہ وہ اطمینان سے فیصلہ کرسکے۔
ہمارے معاشرہ میں شادی کے معاملہ میں عورت کی رائے عموماً اور خاص طور پر دوشیزہ کی رائے شامل نہیں ہوتی۔ اولیاء اپنی پسند سے اس کا عقد کردیتے ہیں ۔ یہ ایک غلط طریقہ ہے۔ احادیث سے اس کا غلط ہونا ثابت ہے۔ اسلام نے عورت کو جب حقِ نکاح دیا ہے تو اسے اس حق سے محروم کرنا صریح زیادتی ہے۔
۲- اب دوسرے سوال کو لیجیے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
لاَ نکاح الّاَ بولی ۱؎
نکاح ولی ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔
اس حدیث سے امام شافعی اور امام احمد نے یہ استدلال کیا ہے کہ ولی کے بغیر عورت کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ پست طبقے کی کوئی عورت تو اپنا نکاح خود کرسکتی ہے یا اپنے نکاح کے لیے کسی کو وکیل بنا سکتی ہے، لیکن شریف عورت کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے۔ احناف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جو عورت عاقلہ بالغہ ہے وہ براہِ راست اپنا نکاح کرسکتی ہے اور دوسری عورت کا نکاح کرا بھی سکتی ہے۔ اس لیے کہ بلوغ کے بعد حقِ ولایت ختم ہو جاتا ہے۔ ۲؎
احناف کی ایک دلیل یہ ہے کہ جب ایک بالغہ اپنی آزاد مرضی سے خرید و فروخت، صدقہ و خیرات، ہبہ اور وصیت جیسے مالی تصرفات کرسکتی ہے تو یہ فیصلہ بھی کرسکتی ہے کہ کس شخص سے نکاح ہو، مہر کی مقدار کیا ہو، نان نفقہ کی نوعیت کیا ہو؟ اس میں بہ ظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔
فقہ حنفی میں اس سلسلہ میں ایک اصول یہ بیان ہوا ہے کہ جو شخص اپنے مال میں تصرف کرسکتا ہے وہ اپنے نفس کے معاملہ میں بھی فیصلہ کا حق رکھتا ہے۔ ۳؎
شریعت نے عورت کو جو آزادی دی ہے یہی رائے اس سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔ ’ لاَ نکاح الّاَ بولی‘ کا مطلب ان کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا شرطِ لازم ہے اور اس کے بغیر نکاح نہیں ہوگا۔ در حقیقت اس میں ایک پسندیدہ طریقہ کی نشان دہی کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ ولی کے ذریعے نکاح ہو۔ یہ بات ناپسندیدہ ہے کہ عورت خود سے نکاح کرلے۔ لیکن اس سے بالغہ کے حق نکاح کی تردید نہیں ہوتی۔ ولی کے بغیر بھی نکاح ہوجائے گا۔ اس سے دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔
۳- نابالغہ کے نکاح کا ثبوت قرآن و حدیث سے ملتا ہے۔ قرآن مجید میں مطلقہ کے لیے عدت تین حیض بیان ہوئی ہے (البقرۃ:۲۲۷) ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ جن عورتوں کی ماہ واری بند ہوچکی ہے یا جن کی ماہ واری شروع ہی نہیں ہوئی ہے ان کی عدت تین ماہ ہے (الطلاق:۴)۔
حیض یا ماہ واری بلوغ کی دلیل ہے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ بلوغ سے پہلے لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے ورنہ اس کی طلاق اور عدت کے بیان کی ضرورت نہ تھی۔
کتبِ حدیث میں صحیح ترین روایت موجود ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عائشہؓ کا نکاح ان کی کم سنی ہی میں رسول اللہ ﷺ سے کیا تھا اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی اور نو سال کی عمر میں ان کی رخصتی عمل میں آئی۔۱؎
اس حدیث کے بارے میں علامہ ابن ہمام کہتے ہیں (نص قریب من المتواتر)۲؎ یعنی یہ حدیث حد تواتر کے قریب پہنچ چکی ہے۔
اس بات پر علماء کا ہمیشہ سے اتفاق رہا ہے کہ لڑکے یا لڑکی کے بلوغ سے پہلے ان کا باپ (ولی) مصلحت کا تقاضا ہو تو دونوں میں سے کسی کو بھی نکاح پر مجبور کرسکتا ہے۔ صرف ابن شبرمہ، ابو بکر الاصم اور عثمان بتیّ سے اس سلسلے میں اختلاف منقول ہے۔ ان کے نزدک نابالغ لڑکے اور لڑکی کا نکاح جائز نہیں ہے۔۳؎
نابالغہ کے نکاح کا حق ولی کو اس لیے دیا گیا ہے کہ بعض اوقات ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ ولی اسے ضروری خیال کرتا ہے۔ جیسے بہت ہی موزوں رشتے کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ ولی کی شدید علالت یا معاشی مجبوری بھی اس کا سبب بن سکتی ہے۔ لڑکی سے ولی کے تعلق، محبت اخلاص اور جذبۂ خیر خواہی سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ جو قدم اٹھائے گا لڑکی کے حق میں مفید ہوگا۔
امام مالک کہتے ہیں کہ لڑکی کے اولیاء میں یہ حق صرف باپ کو حاصل ہے کہ نابالغ لڑکی کا نکاح کردے۔
امام شافعیؒ نے باپ ہی کے حکم میں دادا کو بھی رکھا ہے۔ ان کے نزدیک اولیاء میں باپ اور دادا کے علاوہ کسی دوسرے کو نابالغ لڑکے کے نکاح کا حق حاصل نہیں ہے، اس کے ساتھ شوافع نے یہ بھی کہا ہے کہ پسندیدہ بات یہ ہے کہ باپ دادا بھی اسی وقت اس کی شادی کریں جب کہ وہ سنِ بلوغ کو پہنچ جائے اور اس سے اجازت لے لی جائے تاکہ یہ نہ ہو کہ ناگواری کے ساتھ اسے اس رشتہ کو برداشت کرنا پڑے۔ ۱؎
امام مالک، امام شافعی اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک بلوغ کے بعد اس نکاح کو ختم کرنے کا لڑکی کو حق حاصل نہ ہوگا۔ اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ کی رائے یہ ہے کہ نابالغ لڑکی اور لڑکے کا نکاح باپ دادا کردے تو بلوغ کے بعد انھیں اختیار نہ ہوگا، اس لیے کہ ان کی سوجھ بوجھ شفقت و محبت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بلوغ کے بعد ان کی اجازت سے وہ ان کا عقد کریں ، البتہ ان کے علاوہ عصبات میں سے کوئی دوسرا شخص جو ان کا ولی ہے ان کا نکاح کردے تو بلوغ کے بعد انھیں منظور کرنے یا نہ کرنے کا اختیار باقی رہے گا۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر لڑکی کی عمر بلوغ سے پہلے اتنی ہو چکی ہے کہ وہ معاملات کو سمجھتی ہے اور حالات سے باخبر ہے، اس کے بعد وہ اپنی منظوری دیتی ہے تو اسے خیار بلوغ نہ حاصل ہوگا ورنہ حاصل رہے گا۔ موجودہ حالات میں مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ کے نکاح کا حق صرف باپ دادا تک محدود ہو جیسا کہ امام شافعیؒ کی رائے ہے، اور امام مالک بھی باپ کی حد تک اتفاق کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ’ولی‘ کا لفظ عام ہے، اس لیے ہر ولی کو یہ حق حاصل رہے گا اگر اس کے اقدام سے لڑکے یا لڑکی کو نقصان پہنچ رہا ہو تو قاضی اس نکاح کو ختم کردے گا۔ یہ بات اصولی طور پر تو صحیح ہے لیکن یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔ بلوغ کے بعد لڑکے یا لڑکی کے لیے یہ ثابت کرنا آسان نہیں ہے کہ ولی نے جو اقدام کیا ہے وہ غلط ہے۔ اب اسے وہ ختم کرنا چاہتے ہیں ۔
۴- سماج میں جو لوگ بے شادی شدہ ہیں ، قرآن و حدیث میں ان کے اولیاء کو ہدایت کی گئی ہے کہ ان کا نکاح کردیں اور جو خواتین نکاح کرنا چاہیں انھیں اس سے باز نہ رکھیں ۔ اس سے ولی کی ذمے داری اور اختیار ثابت ہوتا ہے۔ دوسری طرف اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نکاح کے معاملہ میں عورت بااختیار ہے اور اپنی مرضی سے نکاح کرسکتی ہے۔ اس وجہ سے علماء و فقہاء کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف رہا ہے اور بعض اوقات ایک ہی آیت یا حدیث سے دونوں طرح کے استدلال کیے گئے ہیں ۔ علامہ ابن رشد جانبین کے دلائل پیش کرنے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان سے کوئی ایک پہلو قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتا۔ ۱؎
گزشتہ صفحات میں اس موضوع سے متعلق بعض احادیث اور ان سے فقہاء کے استدلالات کا ذکر آچکا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک صحتِ نکاح کے لیے ولی کا ہونا شرط ہے۔ اس کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ البتہ ثیب یا غیر باکرہ کو ولی مجبور نہیں کرسکتا۔ اس کی رضا مندی ہی سے اس کا نکاح ہو سکتا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک ’ثیّب‘ وہ ہے جس کی بکارت زائل ہوگئی ہو، چاہے یہ نکاح صحیح سے ہو یا نکاحِ فاسد سے، شبہ کی بنیاد پر اس کے ساتھ ہم بستری ہوگئی ہو یا اس کے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا گیا ہو بلکہ کسی بھی طبعی یا غیر طبعی طریقہ سے، جیسے اچھل کود، غیر فطری عمل یا عمر کی زیادتی کی وجہ سے اس کی بکارت ختم ہوجائے تو وہ ’ثیب‘ ہے۔ امام نووی نے اسے شوافع کا صحیح ترین قول قرار دیا ہے۔ لیکن یہ بات کچھ باوزن نہیں معلوم ہوتی کہ جس عورت کا جائز، ناجائز، فطری، غیر فطری کسی بھی طریقے سے پردۂ بکارت چاک ہوجائے اسے ’ثیّب‘ قرار دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ اس کی شرم و حیا باکرہ کی طرح نہیں رہی اور وہ صاف الفاظ میں نکاح کی منظوری دے گی۔
امام نووی کہتے ہیں : حدیث میں ’الایم احق بنفسھا من ولیھا‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’ثیب‘ کے نکاح میں ولی کو بھی بہرحال اختیار حاصل ہے۔ البتہ اسے اپنے بارے میں فیصلہ کا حق ولی سے زیادہ ہے۔ اس وجہ سے اگر ولی ثیّب کا نکاح اس کے کفو میں کرنا چاہے اور وہ اس کے لیے آمادہ نہ ہو تو اسے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ کسی ایسے شخص سے جو اس کا کفو ہے نکاح کرنا چاہے اور ولی تیار نہ ہو تو اسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ مخالفت نہ کرے اس کے باوجود اگر وہ اصرار کرے تو ولی کی جگہ قاضی نکاح کردے گا۔۱؎
جہاں تک باکرہ کا تعلق ہے ولی اس کی مرضی جاننے کی کوشش کرے گا لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا وہ اس کا پابند نہیں ہے۔
اس مسئلہ میں فقہ شافعی میں بکارت کو جس طرح بنیاد بنایا گیا ہے اس سے فقہ حنفی میں اختلاف کیا گیا ہے۔ فقہ حنفی کی رو سے اگر کسی عورت کا پردۂ بکارت اچھل کود یا حیض کا خون کثرت سے جاری ہونے یا چوٹ لگنے یا عرصہ تک شادی نہ ہونے کی وجہ سے چاک ہوجائے یا نکاح کے بعد خلوت اور ہم بستری سے پہلے ہی علیٰحدگی عمل میں آجائے یا اس سے اتفاق سے زنا کا ارتکاب ہوجائے تو وہ باکرہ ہی کے حکم میں ہے۔ ہاں اگر وہ زانیہ کی حیثیت سے مشہور ہو اور اس پر حد نافذ ہوئی ہو یا نکاح فاسد یا شبہ کی بنا پر اس کے ساتھ ہم بستری ہوئی ہو تو وہ ’ثیب‘ قرار پائے گی۔ ۱؎
یہ ایک معقول نقطۂ نظر ہے۔ احناف کے نزدیک عورت کو اپنے نکاح کا اختیار بکارت کی بنیاد پر نہیں بلکہ بلوغ کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے جو عورت بالغہ ہے، چاہے وہ باکرہ ہو یا غیر باکرہ اپنی مرضی سے نکاح کرسکتی ہے۔ ولی کے ذریعے نکاح کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
’ لا نکاح الا بولی‘ (نکاح ولی ہی کے ذریعے ہوگا) کے متعلق فقہ حنفی میں دو باتیں کہی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ حدیث ان روایات کے مقابلے میں کم زور ہے جن سے عورت کا حقِ نکاح ثابت ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا شرطِ لازم ہے اور اس کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ اس میں کوئی قانون نہیں بیان ہوا ہے بلکہ ایک پسندیدہ عمل کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ بات نا پسندیدہ ہے بلکہ بے حیائی کی خیال کی جاتی ہے کہ عورت خود سے نکاح کرلے۔ اس سے بالغہ کے حق نکاح کی تردید نہیں ہوتی۔
اس حدیث کو ایک اصول و قانون کے طور پر تسلیم کرلیا جائے تو بھی دوسری احادیث کی روشنی میں اس کا تعلق نابالغ یا نابالغہ سے ہوگا، جس میں ولی کو اختیار حاصل ہے۔ ولی کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔
فقہاء احناف اور بعض دوسرے فقہاء کے ہاں بالغہ اگر غیر کفو میں نکاح کرلے تو ولی کو اعتراض کا حق ہے۔ اس لیے کہ اس کا تعلق عورت ہی سے نہیں اس کے خاندان سے بھی ہے۔ ہاں ، اگر ولی کو اعتراض نہ ہو تو نکاح صحیح ہوگا۔ اگر اعتراض ہو تو نکاح صحیح نہ ہوگا اور قاضی اسے فسخ کرا دے گا۔ ولی کو اعتراض کا حق اسی وقت تک حاصل رہے گا جب تک کہ عورت بچہ کو جنم نہ دے یا واضح طور پر حمل نہ قرار پائے۔ اس کے بعد یہ حق باقی نہیں رہے گا۔ اس لیے کہ اس میں بچہ کا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔۲؎