نکاح میں کفوکامسئلہ

فقہ حنفی کی مبسوط کتابوں میں کفاءت یعنی کفو ہونے کے مسئلے کے لیے مستقل ایک باب مرتب کردیاگیاہے اور شاخ درشاخ مسائل کا ایک جنگل پھیلادیاگیا ہے۔اس جنگل میں اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللہِ اَتْقٰکُمْ (اللہ کے نزدیک تم میں کا سب سے مکرم اورباعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگارہے) کی حقیقت گم ہوکر رہ گئی ہے۔ فقہ حنفی کا یہ باب اس فقہ پرایک دھبا معلوم ہوتا ہے۔ مہربانی کرکے آپ بتائیں کہ کفو کا مسئلہ کیا ہے اور فقہ حنفی میں اس کو یہ حیثیت کیوں دی گئی ہے کہ سادات کے خاندان کی کوئی لڑکی غیرسید سے نکاح کرلے تو اس کے ولی کو نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہے؟

جواب

آ پ کے سوال سے جو ذہن سامنے آیا ہے اس کے پیش نظر میں چند باتیں پہلے عرض کرنا چاہتاہوں 

(۱)      عربی لغت میں کفاءت کے معنی برابری اورمساوات کے ہیں۔ اس لیے کفو کے معنی برابر، مماثل اور مساوی کے ہوئے۔

(۲)     بہت سی چیزوں میں ایک انسان دوسرے انسان کے برابر اوراس کا ہمسرہوتاہے اوربہت سی چیزوں میں دوانسانوں کے درمیان مساوات نہیں ہوتی۔ یہ بات جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات میں صحیح ہے اسی طرح نکاح کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ کفاءت کے مسئلے میں صرف نسب کو سان پر چڑھالینا صحیح طرزِ فکر نہیں ہے۔

(۳)     پوری کائنات میں صرف ایک ذات ایسی ہے جس کا کوئی کفو نہیں ہے اور وہ خالق کائنات کی ذات ستودہ صفات ہے وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًّا اَحَدٌ (اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے)۔ ذات برادری کے ہر شائبے سے پاک اور منزّہ صرف وہی ہے، جس نے ذات برادری بنائی ہے۔ ان باتوں پر اچھی طرح غورکرلیجیے۔

آپ نے جو سوال کیا ہے اور جس اندازمیں کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں زیادہ تر لوگ فقہ حنفی پرعمل کرتے ہیں۔ اسی فقہ کی کتابیں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں ورنہ واقعہ یہ ہے کہ دوسرے مسالک فقہ کی کتابوں میں بھی نکاح میں کفو کے مسئلہ پربہت کچھ لکھا گیا ہے۔

بعض چیزوں میں کفاءت تو تمام ائمہ کےنزدیک معتبر ہے۔ مثلاً دیانت یعنی دین داری اور اخلاق۔ فاسق وفاجر اور بداخلاق وبدکردارمرد کسی دین داراور بااخلاق عورت کا کفو نہیں ہے۔ اگر ایسی کوئی عورت کسی وجہ سے کسی آوارہ گرد مردسے نکاح کرلے تو اس کےاولیا (سرپرستوں )کو اختیارہے کہ وہ اس نکاح کو فسخ کرادیں۔ اس چیز پراتفاق کے بعد دوسری چیزوں میں ان کے درمیان اختلاف ہے اور اختلاف بھی اس درجہ کا کہ ایک ہی امام سے دومتضاد قول منقول ہیں۔ مثال کے طورپر مال (اس حدتک کہ بیوی کامہر اور نان نفقہ ادا کیا جاسکے) امام مالکؒ کے مسلک میں بھی کفو ہونے میں معتبر ہے۔ بدایۃ المجتہدمیں ہے

ولم یختلف المذاہب ان الفقر ممایوجب فسخ انکاح الاب ابنتہ البکراعنی اذا کان فقیرا غیرقادر علی النفقۃ علیھا فالمال عندہ من الکفاءۃ۔

(بدایۃ المجتہد، کتاب النکاح)

’’مذہب مالکی کا یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ فقر واحتیاج ان چیزوں میں ہے کہ باپ نے اگر اپنی باکرہ بیٹی کا نکاح کسی فقیر سے کردیا تو اسے فسخ کیاجاسکتا ہے۔ یعنی جب کہ شوہر فقیر ہو، بیوی کانان نفقہ ادا کرنے پرقادرنہ ہو، لہٰذا مال امام مالکؒ کے نزدیک کفاءت میں داخل ہے۔‘‘

اسی طرح حریت (آزادی) بھی مالکی مسلک میں کفاءت میں داخل ہے۔ کوئی عبد(غلام) اگرکسی آزاد عورت سے نکاح کرلےتو سرپرستوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کو فسخ کرادیں۔ یہ جو مشہور ہے کہ امام مالکؒ کے نزدیک صرف دین ودیانت کی کفاءت معتبر ہے، صحیح نہیں ہے۔ بدایۃ المجتہد سے معلوم ہوتا ہے کہ تین چیزیں ان کے یہاں کفاءت میں معتبر ہیں  دیانت، مالاور حریت۔ یہاں آزادی اورغلامی کے الفاظ فقہی اصطلاح کے لحاظ سے استعمال کیے گئے ہیں۔

صنعت وحرفت یعنی پیشہ کفاءت میں معتبر ہے یا نہیں ؟ اس میں امام احمد بن حنبلؒ کے دوقول ہیں۔ قوی قول یہ ہے کہ کفو کے مسئلہ میں پیشہ معتبر ہے۔ ابن قدامہ کی المغنی میں ہے کہ جو شخص پست اور حقیر پیشہ اختیار کرتا ہے۔ مثلاً وہ جلاہا یا حجام ہے تو ایسا شخص اس شخص کا کفو نہیں ہے جس نے باوقار اور بلند پیشہ اختیار کررکھا ہے۔ مثلاً تجارت یعنی جلاہا، تاجر کا کفو نہیں ہے۔

اب آئیے نسب کے مسئلے پرجو آپ کی الجھن کا سبب ہے اور فقہ حنفی کے باب الاکفاء پرآپ کو غصہ ہے۔ فقہ حنبلی میں نسب کا اس درجہ اعتبار ہے کہ اگر کوئی عربی النسل عورت کسی غیر عربی سے نکاح کرلے تو اس کا نکاح ہی باطل ہے۔ ابوالقاسم خرقی کی مختصر میں ہے

واذا زوجت من غیرکفو فالنکاح باطل۔                     (المغنی، کتاب النکاح)

’’اورجب وہ غیرکفو سے نکاح کرلے تو نکاح باطل ہے۔‘‘

اس کی شرح میں ابن قدامہ نے لکھا ہے کہ اگر کسی غیرعرب نے کسی عربی عورت سے نکاح کرلیا تو دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی اور یہی قول سفیان ثوریؒ کا ہے۔ اسی طرح اگر عربی عورت سے نکاح کرنے والا جلاہاہے تو دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی۔ امام احمدؒ کا دوسرا قول یہ ہے کہ نسب کی کفاءت صحت نکاح کے لیے شرط نہیں ہے۔ یعنی نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن عورت کے سرپرستوں کو اختیار ہوگا کہ وہ قاضی کے ذریعہ نکاح فسخ کرادیں۔ یہ تفصیلات یہ دکھانے کے لیے پیش کی جارہی ہیں کہ صرف فقہ حنفی مجرم نہیں ہے۔ دوسرے مسالک ِفقہ بھی مجرم ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ پرتو یہ الزام ہے کہ وہ حدیث کم جانتے تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ اور امام سفیان ثوریؒ کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ امام شافعیؒ کے بھی اس مسئلہ میں دو قول ہیں۔ ایک یہ ہے کہ نسب نکاح میں معتبر ہے اور دوسرا یہ کہ غیرمعتبر ہے۔ نکاح میں کفو کا جو مسئلہ ہےاس میں فقہ حنفی،فقہ شافعی وحنبلی سے مختلف نہیں ہے۔ جس طرح امام شافعیؒاور امام احمد بن حنبلؒ سے متضاد اقوال منقول ہیں، اسی طرح امام ابوحنیفہؒ سے بھی متضاد اقوال منقول ہیں۔ احناف میں بھی بعض اونچے درجہ کے ائمہ نکاح میں نسب کو معتبر نہیں مانتے۔ علامہ ابن عابد ین شامی نے حاشیہ ردالمحتار کے حوالہ سے لکھا ہے

ان الامام اباالحسن کرخی والامام ابابکر الجصاص وھما من کبار علماء العراق ومن تبعھما من مشائخ العراق لم یعتبروا الکفاءۃ فی النکاح ولو لم یثبت عندھم ھذہ الروایۃ عن ابی حنیفۃ لما اختاروھا۔

’’امام ابوالحسن کرخی اورامام ابوبکرجصاص جو بہت بڑے علماء عراق میں ہیں اوران دونوں کی پیروی کرنے والے دوسرے مشائخ عراق نے نکاح میں نسبی کفاءت کا اعتبار نہیں کیا ہے۔ اور اگر ان کے نزدیک امام ابوحنیفہؒ سے یہ روایت ثابت نہ ہوتی تو وہ کبھی اس کو اختیار نہ کرتے۔‘‘

اسی طرح اس مسئلہ میں کہ کیا عجمی فقیہ اورعالم حضرت علیؓ کے خاندان کا کفو ہو سکتا ہے؟ ائمۂ احناف کی آرا مختلف ہیں۔ علامہ ابن ہمام صاحب فتح القدیر نے ( جو مذہب حنفی کے بیرسٹر سمجھے جاتے ہیں ) عجمی عالم کو خاندان علیؓ کا کفو تسلیم کیاہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ شرف العلم فوق شرف النسب یعنی علم کا شرف نسب کے شرف سے بلند ہے۔ میں نے فقہا کے اقوال نقل کردیےہیں۔ دلائل سے تعرض نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ ایک لمبا کام ہے۔

اس حقیر کانقطۂ نظریہ ہےکہ نسبی فخر کی جہت سے نکاح میں نسب کا اعتبار بالکل غلط ہے۔ اسلام نے نسلی غرور اور نسبی اونچ نیچ کا خاتمہ کردیا ہے۔ البتہ تہذیب وتمدن اورمعاشرتی رہن سہن کے اعتبار سے خاندانوں کے درمیان تفاوت موجود ہے۔ جس خدا نے انسانوں کو ایک ماں باپ سے پیدا کیا ہے اسی خدا نے انسانوں کو شعوب وقبائل میں بھی تقسیم کیا ہے۔ تفاخر کے لیے نہیں بلکہ تعارف کے لیے۔ تعارف کامطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے قبیلہ اور خاندان کی نسبت سے جانا پہچانا جاتا ہے اور مختلف قبیلوں اورخاندانوں کے درمیان رہن سہن، معاشرت، علم وفضل، ذوق اور عادات وخصائل کے لحاظ سے تفاوت ہوتا ہے۔ اس لیے قبیلے اور خاندان کی نسبت سے تعارف میں یہ تمام چیزیں داخل ہیں۔ دوسری طرف زوجین کے تعلقا ت خوش گوار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان باتوں میں وہ برابر کی جوڑہوں۔ ا س حیثیت سے اگر نکاح میں قبیلے اور خاندان کا اعتبار کیاجائے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ اسلام نے تمام قبیلوں اور خاندانوں کو توڑکر ایک کردینے کی تعلیم نہیں دی ہے۔

اخیر میں یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ نسب پر فخر کرنے کی جو برائی مسلم معاشرے میں بھی پیدا ہوگئی تھی اور اب بھی اس کے اثرات باقی ہیں، حالات ِزمانہ نے اس برائی کو بڑی حدتک ختم کردیا ہے۔

چناں قحط سالی شد اندر دمشق

کہ یاراں فراموش کردند عشق

اس کے علاوہ اسلام کی طرف ازسرنورجوع کی تحریک نے بھی نسبی غرور کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ اس لیے نکاح کے معاملے میں سادات اور غیرسادات کافرق ختم ہوتاجارہاہے۔ اب آپ کےلیے غیظ وغضب کاموقع باقی نہیں ہے۔نسبی فخر اور نسلی غرور کو ختم کرنے کے لیے غیظ وغضب مفید بھی نہیں ہے۔                                                 (اگست ۱۹۸۵ء ج ۳ش۲)