والدین کی وفات کے بعد ان کے لیے دعائے مغفرت

میری والدہ کا پندرہ روز قبل انتقال ہوگیا۔ میں اس وقت باہر تھا۔ ان سے اپنی کوتاہیوں کی معافی نہیں مانگ سکا۔ اب کیا کروں ؟
جواب

والدین کی زندگی میں اولاد کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور ان کی خدمت اور خبر گیری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ قرآن وحدیث میں اس کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلّاَ تَعْبُدُوْآ اِلّاَ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْْنِ اِحْسَانًاط
(بنی اسرائیل: ۲۳)
’’تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی طلب میں آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کی بیعت کرنا چاہتا ہوں ۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تمھارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں ، دونوں زندہ ہیں ۔ آپؐ نے اس شخص سے پھر سوال کیا: کیا تم اللہ سے اجر کے طالب ہو؟ اس نے جواب دیا: ہاں ۔ تب آپؐ نے فرمایا:
فَارْجِعْ اِلٰی وَالِدَیْکَ فَاَحْسِنْ صُحْبَتَھُمَا ۔(۱)
’’تب اپنے والدین کے پاس واپس جاؤ اور ان کی اچھی طرح خدمت کرو۔‘‘
آدمی پوری زندگی والدین کی خدمت کرتا رہے، لیکن ان کی زندگی کے آخری لمحات میں وہ کسی وجہ سے ان کے پاس نہ ہو، اس وجہ سے ان سے اپنی کوتاہیوں کی معافی نہ مانگ سکے تو کوئی حرج نہیں ، ان کی دعائیں اس کی ترقی ِ درجات کا ذریعہ بنیں گی، لیکن اگر وہ پوری زندگی ان سے غافل رہے، ان کے حقوق ادا نہ کرے، بلکہ بات بات پر ناگواری کا اظہار کرے، لیکن زندگی کے آخری لمحات میں رسم دنیا نبھانے کے لیے اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگنے بیٹھ جائے تو ایسی معافی تلافی کس کام کی؟
والدین کی وفات کے بعد اولاد کے کرنے کا کام یہ ہے کہ ان کے لیے برابر دعائے مغفرت کرے اور ان کی طرف سے وقتاً فوقتاً صدقہ و خیرات کرتا رہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗ اِلّاَ مِنْ ثَلاَثَۃٍ: اِلّاَ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُّنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہٗ۔‘‘ (۲)
’’جب کسی انسان کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین کاموں کا ثواب اسے بعد میں بھی ملتا رہتا ہے: (۱) صدقۂ جاریہ (۲)علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے (۳) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائے مغفرت کرتی رہے۔‘‘
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں توکیا ان کو اس کا اجر ملے گا؟ آپؐ نے جواب دیا: ہاں ۔ تب انھوں نے عرض کیا: میرے پاس کھجور کا ایک باغ ہے۔ اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ گواہ رہیے کہ میں نے اسے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کردیا۔‘‘ (۱)
امام ترمذیؒ نے یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’اس حدیث کی بنا پر اہل علم کی رائے ہے کہ کس شخص کے مرنے کے بعد اسے اجر و ثواب ملنے کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔ ہاں ، کوئی اس کی طرف سے صدقہ کرے یا اس کے حق میں دعا کرے تو اس کا اسے فائدہ پہنچتا ہے۔‘‘