جواب
قدوری سے جو مسئلہ آپ نے نقل کیا ہے،اس میں سلف کے مابین اختلاف ہے۔اگر کوئی عورت مر جائے اور پیچھے شوہر،ماں ،سگے بھائی بہن اور اخیافی(یعنی ماں جائے) بھائی بہن چھوڑے، تو حضرت علیؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ اور اُبی بن کعبؓ کا فتویٰ یہ ہے کہ اس کی نصف میراث شوہر کو، ۶۱ ماں کو، ۳۱ اخیافی بھائی بہنوں کو دیا جائے گا اور سگے بھائی بہنوں کو کچھ نہ ملے گا۔ اسی فتوے کو علماے احناف نے لیا ہے اور یہی ان کا مفتیٰ بہ قول ہے۔بخلاف اس کے حضرت عثمانؓ اور حضرت زیدابن ثابتؓ کا یہ مذہب ہے کہ ۳۱ میر اث سگے اور اخیافی بھائی بہنوں میں برابر برابر تقسیم کی جائے گی۔ حضرت عمرؓ پہلے قول اوّل کے قائل تھے مگر بعد میں انھوں نے قول ثانی اختیار کرلیا۔ ابن عباسؓ سے دو روایتیں مروی ہیں ، مگر زیادہ معتبر روایت یہی ہے کہ وہ بھی قول ثانی کے قائل تھے۔اسی پر قاضی شریح نے فیصلہ کیا ہے اور امام شافعی ؒ، امام مالکؒ اور سفیان ثوریؒ کا مذہب بھی یہی ہے۔حنفیہ کا استدلال یہ ہے کہ اخیافی بھائی بہن ذوی الفروض ہیں اور سگے بھائی عصبات ہیں ، اور ذوی الفروض کا حق عصبات پر مقدم ہے، لہٰذا جب ذوی الفروض سے کچھ نہ بچے تو عصبات کو کوئی حق نہ پہنچے گا۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ ماں جائے ہونے میں جب سگے اور اخیافی بھائی بہن یکساں ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ برابر کے حصے دار نہ ہوں ۔({ FR 1854 })
کلالہ کے جو معنی حضرت ابو بکرؓ نے بیان فرمائے ہیں اور جنھیں حضرت عمرؓ نے بھی قبول کیا ہے وہ یہ ہیں : مَنْ لَا وَلَدَ لَہُ وَلَا وَالِدٌ۔({ FR 1640 })یعنی کلالہ وہ ہے جس کی نہ اولاد ہو اور نہ باپ۔ اس طرح ماں یا دادی کی موجودگی کسی میت کے کلالہ ہونے میں مانع نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، ستمبر۱۹۵۲ء)