وسوسوں کا علاج

میں کچھ عرصے سے ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہوں ۔ تھوڑی تفصیل سے اپنے حالات لکھ رہاہوں ۔ مہربانی فرماکر مجھے ایسا مشورہ دیجیے کہ ذہنی پریشانیاں دور ہوں ۔ ورنہ اندیشہ ہےکہ میں کہیں سیدھی راہ سے بھٹک نہ جائوں ۔

میں اپنے زمانۂ جاہلیت میں عام لاابالی نوجوانوں کی طرح ایک نوجوان تھا۔ برائیوں میں ملوث۔ لیکن ایک خوبی مجھ میں یہ تھی کہ اچھی باتوں سے مجھے نفرت نہ تھی اور جب کسی بات کو حق سمجھ لیتا تھا تو پھر کسی کی رورعایت مجھے اس سے بازنہ رکھ سکتی تھی۔ اس سلسلے میں ایسے لوگوں سے میں حق کے لیے جھگڑپڑا ہوں جن سے ٹیڑھی بات کرنا بھی لوگ اپنی دین ودنیا خراب کرلینے کے برابر سمجھتے تھے۔ میڑک پاس کرلینے کے بعد ملازمت شروع کی۔ سنیمابینی اور دوسری برائیوں میں مبتلا رہا۔۱۹۵۶ء میں ’تنقیحات‘ نظر سے گزری، لیکن وہ میری ذہنی دسترس سے اونچی کتاب ثابت ہوئی۔ پھر ۱۹۵۹ء میں ’شہادت حق ‘ پڑھی۔ اس کتاب سے مجھ پر یہ بات واضح ہوئی کہ جماعت اسلامی قرآنی تعلیم پھیلانے کے لیےاٹھی ہے۔ چار پانچ ماہ میں تفصیل سے تمام لٹریچر پڑھ لیا۔ پوری بات سمجھ میں آگئی۔ دعوت وتربیت اور اس کے مختلف گوشے اور تقاضے نظروں کے سامنے آگئے۔ زندگی بدل گئی۔زندگی کے دھارے بدل گئے۔ برائیاں دھلتی چلی گئیں ۔پھر جس قدر مجھ سے ہوسکتا دین حق کےلیے جدوجہد کرنے لگا۔ ۱۹۶۰ءمیں آل انڈیا اجتماع دہلی میں شریک ہوا۔ پھر ۱۹۶۱ء میں سخت بیمارپڑا اور کسی قدرصحت حاصل ہونے کے بعد ایک دوسرے مقام پرتبدیل کیاگیا۔ اسی کے بعد سے رفتہ رفتہ میری حالت بدلتی چلی گئی۔ شیطانی خیالات کی کثرت ہے۔ جن کو میں روکتا رہااور روک رہاہوں ۔ تقریباً ایک سال ہوامسلسل علاج کے بعد میری صحت اب کافی حدتک ٹھیک ہوگئی ہے لیکن پچھلے پانچ چھ ماہ سے سخت ذہنی مصیبت میں پھنساہواہوں ۔ میرے دماغ میں فلمی گانے گونجتے رہتے ہیں اور ان میں کے کچھ وہ ہیں جن کا زمانۂ جاہلیت میں مجھے بہت شوق تھا۔اس کے علاوہ نئے فلمی گانے جو بازاروں میں سنائی دیتے ہیں، دل ودماغ میں گونجتے رہتے ہیں ۔ کبھی کبھی بہت ہی گندے قسم کے وسوسے پیداہوتے ہیں ۔ اگر میں ان پر عمل کروں تو گناہ کبیرہ لازم آئے۔ یہ وسوسے سوہان روح بنے ہوئے ہیں ۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو خیالات پرپابندی لگاتا ہے اور اس لیے میں ان خیالات سے سخت الجھن میں گرفتارہوں ۔ کبھی یہ وسوسے اتنے ذلیل قسم کے ہوتے ہیں کہ کفر سے کم کوئی لفظ ان کے لیے نہیں کہا جاسکتا۔ کبھی اتنی پریشانی بڑھ جاتی ہے کہ جی چاہتا ہے، اگر معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ مجھے آگ سے پناہ دے گا۔تومیں آمادہ ہوں کہ میراسرایک پتھر پررکھ کر دوسرے پتھر سے اسے کچل دیاجائے تاکہ وہ سرجس میں اس قدر گندے خیالات بھرے ہوئے ہیں، پاش پاش ہوجائے۔کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں پاگل ہوجائوں گا۔آپ یہ بتائیے کہ کیا میری یہ زندگی معصیت کی زندگی ہے ؟ مجھے بتائیے کہ اس حال میں میرے ایمان کا اعتبار ہے یا نہیں ؟ کیا اس سلسلے میں آپ میری کوئی مدد نہیں کرسکیں گے؟ میں نے اپنے اندرونی حالات صاف صاف آپ کے سامنے اس لیے رکھے ہیں کہ مجھے کوئی ایسا علاج بتائیے جس پرعمل کرکے میں خدا کی ناراضی سے بچ سکوں ۔ مجھے بتائیے کہ اس وقت میرا درجہ اسلام میں کیا ہے؟ اوراس خبیث چیز کو دور کرنے کے لیے میں کیاکروں ؟

جواب

آپ کے مفصل خط سے آپ کے ذہنی وقلبی اضطراب کاحال معلوم ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس اضطراب کو دور فرمائے۔ آپ نے اپنی جو کیفیت لکھی ہے، بحمداللہ وہ بہت اچھی ہے۔آپ اپنے کو پریشان نہ کریں ۔اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہےکہ اس نے آپ کو توبہ کی توفیق بخشی اور آپ کی زندگی سدھر گئی۔

اس وقت خراب وسوسوں کی کثرت سے آپ کو جو پریشانی لاحق ہےاس کےکئی اسباب ہیں ۔ پہلا سبب گندہ ماحول ہے جس نے نہ جانے کتنے نوجوانوں کو صرف گندے خیالات ہی میں نہیں بلکہ گندے اعمال میں مبتلا کررکھا ہے سینمائوں کے ہیجان انگیز مناظر، پبلک مقامات پرعورتوں کی عریاں ونیم عریاں قد آدم تصویریں اورفحش قسم کے فلمی گانے معصیت وبے حیائی کی وہ بھڑکتی ہوئی چنگاریاں ہیں جو متاع عفت وعصمت اورطہارت قلب ونظر کو بھسم کیےدے رہی ہیں ۔ آپ کے وسوسوں کا دوسرا سبب شیطان کااغوا اور نفس کی ریشہ دوانیاں ہیں ۔ اور تیسرا سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے دماغ اب تک طاقت ور نہ ہوا۔ اگردماغی ضعف محسوس کرتے ہوں تو کسی اچھے طبیب سے مشورہ کرکے کوئی دوا استعما ل کیجیے۔ اور اگر یہ سبب نہ ہوتو پھر وسوسوں کو دور کرنے کا علاج یہ ہے کہ پوری طرح اپنے آپ کو فرائض وواجبات کی ادائیگی اورتلاوت قرآن اوراچھی کتابوں کے مطالعے میں مشغول رکھیے، نیز گندے ماحول کو بدلنے کی ہرممکن کوشش کیجیے، نوجوانوں کو حکمت وشفقت کے ساتھ بتائیے کہ سنیمااوراس کے لوازمات اخلاقی انارکی پھیلاکر انسان کی کتنی قیمتی متاع کو تباہ کررہے ہیں ۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی وسوسے آئیں تو انھیں آنےدیجیے۔ ان کی طرف دھیان نہ دیجیے، ان کی پروانہ کیجیے۔ آپ ان کی طرف دھیان نہ دیں گے تو وہ بہت کم آئیں گے۔ انسان کی قدرت میں یہ نہیں ہے کہ وہ خراب قسم کے وسوسوں کا آنا بند کرسکے۔ اس کی قدرت میں جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش کے اسباب پرقابو حاصل کرے، یعنی گندہ اورخدا سے پھیرنے والا لٹریچر نہ پڑھے۔ قصداً فلمی گانے نہ سنے اور ایسی تمام چیزوں سے اجتناب کرے جو ذہن کو بھٹکانے والی ہوں ۔ وسوسے آئیں تو انھیں دماغ سے نکال دے۔ شیطان اور نفس کی شرارتوں سے پناہ مانگے اورخدا کی طرف متوجہ رہے۔ اس کے بعد اس کو وسوسوں سے کچھ نقصان نہ پہنچے گا بلکہ انھیں دور کرنے کا مجاہدہ ان شاء اللہ اس کے درجات کو بلند کرے گا۔

وسوسوں کے سلسلے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث بڑی تسلی بخش ہے

’’وہ فرماتے ہیں کہ ایک بارچند صحابہ نے حضورؐ سے کہا یا رسول اللہ! ہم اپنے نفس میں ایسی باتیں پاتے ہیں کہ ان کو بولنے کے مقابلے میں یہ زیادہ پسند ہے کہ ہم آگ میں جل کر کوئلہ بن جائیں، یا ہمیں آسمان سے زمین پرپھینک دیاجائے۔ حضورؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا یہ تو صریح ایمان کی علامت ہے۔‘‘

وسوسوں کے بارے میں آپ نے اپنا جواحساس لکھا ہے اس کو پڑھ کر مجھے یہ حدیث یاد آگئی۔ آپ بھی اس حدیث سے تسکین حاصل کریں ۔

یہ جوکچھ عرض کیاگیا وسوسوں کے بارے میں عرض کیاگیاکیوں کہ ان کا شرعی حکم یہ ہے کہ وہ قابل مواخذہ نہیں ہیں ۔ لیکن اگر وسوسے خیالات وافکار میں بدل جائیں یعنی ذہن ودماغ میں جڑپکڑلیں یا کسی برائی کا وسوسہ آئے اور وہ ارادہ بن جائے یعنی یہ کہ اگر موقع ملا تو ہم وہ برائی کریں گے تواب یہ چیز قابل مواخذہ بن جائے گی۔ اس لیے کہ انسان کی زندگی اس کے خیالات وافکار اوراس کے ارادوں ہی سے بنتی یابگڑتی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ پوری کوشش کرکے برےخیالات وافکار اور برے ارادوں کو دل ودماغ سے نکال کر ان کی جگہ پراچھے خیالات اوراچھے ارادے دل ودماغ میں جمائے جائیں ۔ آپ اچھے خیالات وافکار سے اپنے دل ودماغ کو اس قدر بھردیجیے کہ برے خیالات کی گنجائش باقی نہ رہے۔ آخرت کے حساب وکتاب، اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کے تصور او راپنے انجام کی فکر کودوسری تمام چیزوں پرغالب کیجیے اور یہ چیز عمل سے حاصل ہوتی ہے۔اچھے خیالات کو صرف خیالات کی حدتک باقی نہ رکھیے بلکہ ان کے مطابق عمل شروع کردیجیے اورمسلسل عمل کیے جائیے۔ اچھے اعمال پرمداومت ایمان ویقین کی کیفیات میں اضافہ کرتی ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ وسوسے ہوں یا برے خیالات یا برے ارادے، سب کا علاج یہ ہے کہ ہم سب اپنے آپ کو اچھے خیالات واعمال میں اس قدر مشغول کردیں کہ برے خیالات واعمال کی فرصت ہی باقی نہ رہے۔ مخلص مسلمان کے اندر یہ خرابیاں بے عملی یا اپنے اوقات کو ایسی چیزوں میں صرف کرنے سے پیداہوتی ہیں جو فکروعمل کو بگاڑنے والی ہیں ــــــمریض اگر اپنے مرض سے پریشان ہولیکن مرض کو دور کرنے والے علاج سے غفلت برتے تو ظاہر ہےکہ مرض دور نہ ہوگا۔ بحمد اللہ آپ کا معاملہ تو صرف وسوسوں کی حدتک ہے، اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، انھیں اپنے دماغ سے جھٹک دیجیے اور میدان عمل میں ایک مجاہد کی طرح زندگی بسر کیجیے۔

آخر میں دوباتیں بطورمشورہ اور بھی عرض کرتاہوں ۔ ایک یہ کہ آپ بکثرت درج ذیل مختصر دعا اس کے معنی کے شعورکے ساتھ پڑھاکیجیے۔ ان شاء اللہ اس سے فائدہ ہوگا

اللھم الھمنی رشدی واعذنی من شر نفسی وشرالشیطان ۔

’’اے اللہ! میرے دل میں وہ باتیں ڈال جو مجھے ہدایت وفلاح تک پہنچانے والی ہوں اور مجھے میرے نفس کی شرارت اورشیطان کی شرارت سے نجات دے۔‘‘

دوسری یہ کہ سونے کے وقت سورۂ اخلاص (قل ھواللہ) اور معوذتین (سورۂ فلق وسورۂ ناس) پڑھ کر سویا کریں ۔                                   (اکتوبر۱۹۶۴ءج۳۳ش۴)