جواب
یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ جب بھی مبالغہ پر نفی آئے تو وہ مبالغہ فی النّفی کے معنی میں ہوگی۔ ظَلَّامٌ کے معنی ہیں بہت بڑا ظلم کرنے والا۔ یہ لفظ جب نفی کے ساتھ بولا جائے گا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ فلاں شخص مطلق ظلم کرنے والا نہیں ہے، بلکہ یہ ہوگا کہ وہ بڑا ظلم کرنے والا نہیں ہے اور سننے والا اس سے یہ نتیجہ نکالے گا کہ وہ کسی نہ کسی حد تک تو ضرور ظلم کر گزرتا ہے۔ اسی لیے تفہیم القرآن میں اس جملے کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ’’اللّٰہ اپنے بندوں کے لیے ظالم نہیں ہے۔‘‘ اور یہی ترجمہ دوسرے مترجمین نے بھی کیا ہے۔ شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ کا ترجمہ یہ ہے: ’’خدا ستم کنندہ نیست بربندگان‘‘ شاہ رفیع الدین صاحبؒ کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللّٰہ نہیں ظلم کرنے والا واسطے بندوں کے۔‘‘ شاہ عبدالقادر صاحبؒ کا ترجمہ ہے: ’’اللّٰہ ظلم نہیں کرتا بندوں پر‘‘ اور مولانا اشرف علی صاحبؒ اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں : ’’اللّٰہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والے نہیں ۔‘‘ اس طرح ظلم کی نفی سے ظلاّم کی نفی آپ سے آپ ہو جاتی ہے اور کسی مبالغہ فی النفی کی حاجت باقی نہیں رہتی۔ ظاہر ہے کہ جو ظالم نہیں ہے وہ آخر بہت بڑا ظالم کیسے ہوجائے گا۔
اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس آیت ہی میں نہیں بلکہ دوسری متعدد آیات میں اپنے ظالم ہونے کی نفی کے بجاے ظلاّم ہونے کی نفی اس لیے کی ہے کہ خالق اگر اپنے بندوں کو بے قصور عذاب دے تو وہ معمولی ظالم نہیں بلکہ بہت بڑا ظالم ہوگا۔ پس یہ بات ارشاد فرما کر وہ یہ حقیقت اپنے بندوں کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہے کہ جو خدا ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی پرورش کرنے والا ہے، وہ انھیں عذاب اسی صورت میں دیتا ہے، جب وہ طغیان و سرکشی میں حد سے گزر جاتے ہیں اور اپنے کرتوتوں سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیتے ہیں ۔ ورنہ خالق اور رب اپنی مخلوق کے حق میں رحیم ہی ہوسکتا ہے، ظالم ہرگز نہیں ہوسکتا۔ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۷۶ء)