وکیل کے غلط مشورے پرعمل کانتیجہ

,

زید نے بکرسے چارہزارروپے قرض لیے اور پھرتھوڑا تھوڑا کرکے سب روپے ادا کردیے۔ اس کے بعد زید نے بکر سے ا پنا لکھا ہوا رقعہ واپس مانگا ۔ بکر نے جواب دیا کہ ابھی رقعہ مل نہیں رہاہے۔ تلاش کرکے واپس کردوں گا۔ واضح رہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے پر بہت اعتماد تھا۔لیکن کچھ مدت کے بعد دونوں میں جھگڑا ہوگیا۔ بکرکے کچھ روپے زید کے بعض رشتہ داروں پرواجب الادا تھے۔ مطالبہ کرنےپر ان رشتہ داروں نے روپے ادا کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے غصے میں بکر نے زید پرچار ہزار روپے کا دعویٰ دائر کردیا۔ حالاں کہ یہ رقم زید ادا کرچکاتھا اور بکر خود کچھ معتبر لوگوں کے سامنے اس کا اعتراف کرچکا ہے کہ میرے روپے زید کے ذمے باقی نہیں ہیں ۔ زید کو وکیل نے مشورہ دیا کہ وہ عدالت میں یہ بیان دےدے کہ رقعہ اس کا لکھا ہوا نہیں ہے۔ چارہزار کی خطیر رقم کی دوبارہ ادائیگی سے بچنے کے لیے زید نے اس مشورے پرعمل کیا۔ لیکن عدالت نے اس کے بیان کو تسلیم نہیں کیا اور بکر کو زید کے خلاف ڈگری دےدی۔ اس معاملے میں بکر کا رویہ توظاہر ہے ۔ سوال یہ ہے کہ شرعی نقطۂ نظر سے زید بھی قصوروار ہے یا نہیں ؟ اس نے عدالت کےفیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کیا ہے۔ کیا زید کو اس غلط بیانی اور اس پراصرار کی رخصت ہے؟

جواب

 آپ نے دومسلمانوں کے درمیان جھگڑے کی جو تفصیل لکھی ہے وہ افسوس ناک ہے۔ میرے اظہارخیال کو فتویٰ نہ سمجھیے بلکہ ایک شخص کی رائے سمجھیے ۔ میرا خیال ہے کہ زید اپنے وکیل کے غلط مشورے پر عمل کرکے دلدل میں پھنس گیا عجب نہیں کہ اس کو چارہزار روپے بھی دینے پڑیں اور قریب قریب اتنی ہی رقم مقدمے پربھی خرچ کرنی پڑے۔زید کے لیے تقویٰ کا راستہ یہ تھا کہ وہ عدالت میں صحیح بات کا اظہار کرتا۔ وہ کہتا کہ بکر نے میرے اعتماد سے غلط فائدہ اٹھاکر مجھ پر جھوٹا مقدمہ دائر کیا ہے ۔ رقم میں نے ادا کردی ہے اور رقعہ اس نے مطالبہ کے باوجود واپس نہیں کیاتھا۔ پھر اپنی بات ثابت کرنے کےلیے وہ گواہ مہیا کرتا اور اسی کے لیے پوری کوشش کرتا۔ بالفرض اگر وہ ہار بھی جاتا تو موجودہ شکل سے وہ شکل بہرحال بہتر تھی۔ چوں کہ زید نے اپنے آپ کو ایک بڑے نقصان سے بچانے کے لیے غلط بیانی کی ہے، کسی کی حق تلفی کرنے یا کسی کو نقصان پہنچانے کےلیے جھوٹ نہیں بولا ہے۔ اس لیے وہ اس جھوٹ کا مجرم نہیں ہے جس پرلعنت بھیجی گئی ہے۔ اس طرح کے جھوٹ کا مجرم بکر ہے جس نے قرض وصول پانے کے بعد زید پرجھوٹا مقدمہ دائر کیا ہے۔                                      (مارچ ۱۹۶۹ء ج۴۲ش۳)