جواب
آپ کا سوال پڑھ کر بڑا تعجب ہوا۔بجاے اس کے کہ آپ کی بستی کے لوگ اس بات پر اﷲ کا شکر ادا کرتے کہ ان کے درمیان ایک نیک بندہ ایسا ہے جو خود حلال کی کمائی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کرتا ہے اور دوسرے لوگ حرام رزق یا مشتبہ رزق کھانے والے ہیں تو وہ اپنے آپ کو اس ناپاکی سے بچانے کی کوشش کرتا ہے،نیز بجاے اس کے کہ لوگ اس کی زندگی سے سبق لیتے اور خود اس کے ماں باپ اور رشتہ دارشکر بجا لاتے کہ ان کے گھر میں ایک ایسا پرہیز گار مردِ خدا پیدا ہوا ہے۔بستی کے لوگ اور ماں باپ اور اقربا الٹے اس سے بگڑتے ہیں اور اس کے متعلق پوچھ رہے ہیں کہ اس کی یہ پرہیز گاری کیسی ہے۔وہ اگر اعتدال سے زیادہ سختی بھی کر رہا ہے تو اس کی زیادتی نیکی کی طرف ہے نہ کہ برائی کی طرف۔ آپ لوگوں کو اس کی پرہیز گاری کے متعلق پوچھنے کے بجاے یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ جو لوگ تجارت جیسے پاک ذریعۂ رزق کو بھی جھوٹ سے ناپاک کرلیتے ہیں اور جو لوگ رشوت اور ظلم اور ایسے ہی دوسرے حرام ذرائع سے روزی حاصل کرتے ہیں ،ان کی یہ ناپرہیزگاری کیسی ہے!قصور وار کون زیادہ ہے؟ وہ جو ان گندگیوں سے خود بچتا ہے اور دوسروں کو بچانا چاہتا ہے یا وہ جو اِن گندگیوں میں خود مبتلا ہوتے ہیں اور بچنے والے کو اُلٹی ملامت کرتے ہیں ؟
مجھے یہ دیکھ کر بڑا رنج ہوتا ہے کہ اب مسلمانوں کی اخلاقی پستی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ان کی بستیوں میں خدا کا قانون توڑنے والے مزے سے دندناتے پھر تے ہیں اور رب العالمین کے قانون کی پابندی کرنے والے اور اس کی اطاعت کی تلقین کرنے والے اُلٹے نکو بن جاتے ہیں ۔
متعفن فضا میں اگر کہیں سے خوش بو کی ایک ذرا سی لپٹ آرہی ہو تو تندرست دماغ اس کی طرف لپکتے ہیں اور ان کا جی چاہتا ہے کہ ساری فضا ہی ایسی ہوجائے۔ لیکن ماتم کے قابل ہے ان بیمار دماغوں کا حال جو خوش بو کی اس لپٹ پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فضا میں اتنی سی خوش بو بھی باقی نہ رہے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ فضا کی عفونت نے ان دماغوں کو اندر تک سٹرا دیا ہے، حتیٰ کہ اب ان کے لیے بدبو گوارا ہوگئی ہے اور خوش بو ناگوار۔ (ترجمان القرآن ،اپریل۱۹۴۶ء)