ایک عالم دین نے اپنی تقریر میں پندرہویں شعبان کے روزے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ثبوت میں حضرت علیؓ کی جو حدیث پیش کی جاتی ہے وہ اس درجہ ضعیف ہے کہ وہ فضائل اعمال میں ہوتی تب بھی قابل استدلال نہیں ٹھہرتی، چہ جائے کہ احکام میں۔ کیوں کہ یہاں حکم ہے (قوموالیلھا وصوموانھارھا) اس کا راوی ابوبکر بن عبداللہ حددرجہ ضعیف ہے۔ کسی محدث نے دبے لفظوں میں بھی اس کی تعدیل نہیں کی ہے۔ اس لیے اس حدیث سے کوئی حکم تو کیا کسی عمل کی فضیلت بھی ثابت نہیں ہوتی۔ کیوں کہ فضائل اعمال میں کسی حدیث ضعیف کو قبول کرنے کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ حد درجہ ضعیف نہ ہو اور دوسری شرط یہ ہے کہ اس پر عمل برسبیل احتیاط کیاجارہاہونہ کہ ثابت واقعہ اور مشروع سمجھ کر۔اور اس حدیث میں یہ دونوں شرطیں مفقود ہیں۔ حددرجہ ضعیف بھی ہے اوراس پر عمل ثابت وواجب سمجھ کرکیاجارہاہے۔ انھوں نے کہا کہ اس روزے کے بارے میں علامہ شاطبی اور علامہ رضامصری نے کھل کر لکھا ہے کہ بدعت ہے۔ آگے انھوں نے کہا اسی طرح خصوصیت کے ساتھ نصف شعبان کو بعد مغرب ہی زیارت قبر کا بھی ثبوت نہیں ہے۔ ان باتوں کی روشنی میں سوال ہےکہ
۱-کیا نصف شعبان کے روزے کا کوئی قابل قبول ثبوت نہیں ہے؟
۲- کیا حضرت علیؓ کی حدیث فضائل اعمال میں نہیں ہے۔ فضائل اعمال کامفہوم کیاہے؟
۳-کیا پندرہویں شعبان کو شب اور وقت کی تخصیص کے ساتھ زیارت قبر سنت نہیں ہے؟
جواب
آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں
۱- یہ بات تو صحیح ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب میں زیارت قبور اور ۱۵؍شعبان کے روزے کو جو اہمیت اب دے دی گئی ہے اس کا کوئی شرعی ثبوت موجود نہیں ہے۔لیکن ۱۵؍شعبان کے روزے کے بارے میں حضرت علیؓ کی جو حدیث ہے اس کو بالکل ناقابل قبول کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ وہ حدیث یقیناًضعیف ہے لیکن موضوع نہیں ہے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ کے علاوہ امام بیہقی نے شعب الایمان میں اور حافظ منذری نے ترغیب وترہیب میں درج کیا ہے اور کسی محدث نے اس کو موضوع نہیں قراردیا ہے۔خود ان عالم صاحب نے بھی جن کا حوالہ آپ نے دیاہےاس کو موضوع نہیں کہاہے۔
(یعنی اس رات کو عبادت میں بسر کرو اور اگلے دن روزہ رکھو) میں جو حکم ہے اس سے اس دن کے روزے کی صر ف فضیلت ہی اخذ کی گئی ہے، کسی نے اس کو واجب یامسنون قرارنہیں دیاہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کون شخص اس دن کا روزہ واجب یا ثابت شدہ سنت سمجھ کررکھتا ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے توغلط کرتاہے۔
۲- حضرت علیؓ کی حدیث فضائل اعمال میں داخل ہے۔فضائل اعمال ان اعمال کوکہتے ہیں جو واجب ومسنون تونہیں ہوتے لیکن ان میں ایک طرح کی فضیلت موجود ہوتی ہے۔ کنزالعمال میں حضرت علیؓ کی حدیث کتاب الفضائل ہی میں درج کی گئی ہے۔فضائل اعمال میں حدیث ضعیف کو قبول کرنے کی جو شرطیں ان عالم صاحب نے بیان کی ہیں اس کے ثبوت میں کوئی بات نہیں کہی۔ مشکوٰۃ کے ساتھ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒکا اصول حدیث میں جو مختصررسالہ چھپاہواہے اس میں فضائل اعمال میں حدیث ضعیف کے قبول کیے جانے کے لیے کوئی شرط نہیں لگائی گئی ہے۔
۳-پندرہویں شب کو بعض مقامات پربعد مغرب ہی سے عورتوں، مردوں، لڑکوں اور لڑکیوں کے جو قافلے قبرستان جاتے ہیں اور اس رات کو ایک میلے کی طرح مناتے ہیں اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔حدیث ضعیف سے بس اتنا ہی ثابت ہوتاہے کہ اس شب کو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام قبرستان بقیع تشریف لے گئے تھے۔ لیکن اتنی خاموشی کے ساتھ کہ خود حضرت عائشہؓ کو بھی اس کی خبر نہیں ہوئی۔اس کے لیے نہ توآپؐ نے صحابہ کو کوئی حکم دیا اور نہ کوئی ترغیب دی۔اور یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ ہرسال شعبان کی پندرہویں شب کو قبرستان بقیع جانا آپ کے معمول میں داخل تھا۔اس کے علاوہ ضعیف احادیث میں بھی کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جس سے معلوم ہوتاہوکہ حضورؐ کے عہد میں یا صحابہ وتابعین کے عہد میں لوگ اس شب کو زیارتِ قبورکے لیے جایا کرتے ہوں۔ اس لیے اس شب کو قبرستان جانا ’سنت‘ کی تعریف میں نہیں آتا۔
شب برأت میں جو خرافات لوگوں نے رائج کردی ہیں ان سے انھیں بچانے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اس رات کی عبادت اوردن کے روزے کومطلقاً بدعت قرار دینا میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔
(اکتوبر۱۹۷۰ء،ج۴۵،ش۴)