جواب
فقہاے اسلام میں یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ دادا کی موجودگی میں جس پوتے کا باپ مر گیا ہو،وہ وارث نہیں ہوتا بلکہ وارث اس کے چچا ہوتے ہیں ۔اگرچہ ابھی تک مجھے قرآن وحدیث میں کوئی ایسا صریح حکم نہیں ملا جسے فقہا کے اس متفقہ فیصلے کی بِنا قرار دیا جاسکے۔لیکن بجاے خود یہ بات کہ فقہاے اُمت سلف سے خلف تک اس پر متفق ہیں ،اس کو اتنا قوی کردیتی ہے کہ اس کے خلاف کوئی راے دینا مشکل ہے۔ویسے بھی یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ پوتا بہرحال اپنے باپ کے واسطے ہی سے دادا کے مال میں حق دار ہوسکتا ہے نہ کہ براہ راست خود۔ اسی طرح بہو اپنے شوہر کے واسطے سے خسر کے مال میں سے حصہ پاسکتی ہے نہ کہ براہ راست خود۔اگر ایک شخص کا بیٹا اس کی زندگی میں مرجائے اور وہ شادی شدہ نہ ہو، تو آپ خود مانیں گے کہ اس کا حصہ ساقط ہو جائے گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ باپ کے مرنے پر اس کے ترکے میں سے اس کے فوت شدہ بیٹے کا حصہ بھی نکالا جائے، اور پھر اُس بیٹے کی میراث اُس کی ماں اور اُس کے بھائیوں وغیرہ کو پہنچائی جائے۔اسی طرح اگر اس فوت شدہ لڑکے کی کوئی بیوی موجود ہو تو آپ خود مانیں گے کہ وہ اپنے خسر کے ترکے میں سے حصہ پانے کی مستحق نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اُس کا نکاح ثانی ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔پھر آپ کو کیوں اصرار ہے کہ صرف اُس کا بیٹا موجود ہونے کی صورت میں اُس کا حصہ ساقط نہ ہو بلکہ وہ اس کے بیٹے کو پہنچے؟
رہا یتیم کی پرورش کا سوال، تو شریعت کی رُو سے اُس کے چچا اُس کے ولی ہوتے ہیں ،اور ان پر اُس کا حق ہے کہ وہ اُس کی پرورش کا انتظام کریں ۔ نیز شریعت نے وصیت کا حکم اسی لیے دیا ہے کہ اگر کوئی مرنے والا اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو اور اُس کے خاندان میں کچھ لوگ مستحق موجود ہیں تو وہ ان کے حق میں وصیت کرے۔ ۳۱ حصۂ مال کی حد تک وہ وصیت کرسکتا ہے،اور اس میں یہ گنجائش موجود ہے کہ اگر وہ کوئی یتیم پوتا چھوڑ رہا ہے،یا کوئی بیوہ بہو چھوڑ رہا ہے جو بے سہارا ہو، یا کوئی بیوہ بھاوج یا غریب بھائی یا بیوہ بہن چھوڑ رہا ہے،تو ان کے لیے وصیت کر جائے۔ یہ گنجائش اسی لیے رکھی گئی ہے کہ قانونی وارثوں کے سوا خاندان میں جو لوگ مدد کے محتاج ہوں ،ان کی مدد کا انتظام کیا جاسکے۔ (ترجمان القرآن، مارچ۱۹۵۲ء)