پورے مہر کا استحقاق

 ہمارے یہاں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو کم ہی پیش آتا ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک صاحب نے اپنی لڑکی کی شادی ایک نوجوان سے کی۔جب لڑکی رخصت ہوکر اپنی سسرال گئی اور میاں بیوی تنہائی میں جمع ہوئے تو شوہر اپنی بیوی کی طرف مخاطب نہ ہوا۔ کمرہ میں الگ بیٹھا کچھ لکھتا پڑھتا رہا۔ چند دن اسی طرح گزرگئے۔ آخر لڑکی نے اپنے شوہر کو اپنی طرف مخاطب کرنے کے لیےاس کی کتاب چھپادی تب وہ اس کی طرف مخاطب ہوا اور کتاب کے بارے میں دریافت کیا۔ لڑکی رونے لگی اور شوہر سے کہنے لگی کہ جب آپ نے مجھ سے شادی کی ہے تو یہ بے رخی کیوں ہے؟ تب شوہر نے کہا کہ خرابی تم میں نہیں بلکہ خرابی مجھ میں ہے۔ لڑکی نے کہا کہ جب بات یہ ہے تو آپ نے شادی کیوں کی؟ اپنے والدین کو اپنا حال کیوں نہیں بتایا ؟ بہر حال ایک ہفتہ عشرہ شوہر کے ساتھ رہنے کے بعد لڑکی اپنے والدین کے پاس آگئی۔ اب جو سوالات پیداہوتے ہیں وہ یہ ہیں 

(۱) کیا نامرد شوہر کو علاج کے لیے کوئی مدت دی جائے، یا فوری طورپر اس سے طلاق دینے کی درخواست کی جائے؟ (۲) اگر طلاق دے دے تو لڑکی کو کتنا مہر ملے گا؟ (۳) کیا اس کو عدت گزارنی ہوگی؟

جواب

 شوہر اگر عنین (نامرد)ہو-عنین اس مرد کوکہتے ہیں جس کا عضو تناسل موجود ہولیکن وہ اپنی بیوی سے جماع پربالکل قادر نہ ہو- بیوی اس سے علیحدگی چاہتی ہواور شوہر اپنی نامردی کا اقرار کرے تو شرعاً اس کو علاج کا وقت ملنا چاہیے۔علاج کی یہ مدت ایک سال ہوگی۔ شوہر اگر خود طلاق دے دے تو معاملہ آسان ہے۔ ورنہ یہ مسئلہ تفریق نکاح کا ہوگا۔ یہاں شرعی عدالتیں موجود نہیں ہیں اس لیے شرعی پنچایت میں مقدمہ لے جانا چاہیے۔ علامہ ابن قدامہ نے المغنی میں لکھا ہےکہ عنین کے علاج کے لیے ایک سال کی مدت کا قول حضرات عمروعثمان وعبداللہ بن مسعودو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم کا ہے اور اسی کو سعید بن المسیب، عطابن رباح، عمروبن الدینار، نخعی، قتادہ اور حماد بن سلیمان نے اختیار کیا ہے۔ اور یہی مسلک امام مالک، ابوحنیفہ، اصحاب ابوحنیفہ، ثوری، اوزاعی، شافعی، اسحاق اور ابوعبیدہ رحمہم اللہ کا ہے۔

و روی ان عمررضی اللہ عنہ اجَل العنین سنۃ، و روی ذلک الدار قطنی باسنادہ عن عمرو ابن مسعود والمغیرہ بن شعبۃ و لا مخالف لھم ورویٰ ابو حفص عن علیؓ۔                 (المغنی ج۶)

’’حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے عنین کے لیے ایک سال کی مدت مقرر کی اور دار قطنی نے اپنی سند سے یہ قول حضرت عمرؓ، ابن مسعودؓ،مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت کیا ہے اور صحابہ میں ان کا کوئی مخالف نہ تھا اور ابوحفص نے یہ قول حضرت علیؓ سے روایت کیاہے۔‘‘

فقہ حنفی کی کتابوں میں بھی عنین (نامرد) کے علاج کے لیے ایک سال کی مدت کا ذکر ہے۔ اس کی وجہ فقہائے احناف عام طورسے یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سال میں چارموسم گزرجاتے ہیں۔ اگر نامردی کسی موسمی اثر کی وجہ سے ہوتو ایک سال میں چاروں موسم گزرجاتے ہیں، صحت ہوجائے گی ورنہ سمجھا جائے گا کہ یہ پیدائشی اور لاعلاج مرض ہے۔

(۲) عورت کو مقرر شدہ پورا مہرپانے کا استحقاق جن صورتوں میں ہوجاتا ہے ان میں سے چارصورتیں یہ ہیں 

(الف)  شوہر نے فی الواقع بیوی سے وطی کی ہو۔

(ب)              خلوت صحیحہ ہوگئی ہو، خواہ شوہر نے وطی کی ہو یا نہ کی ہو۔

(ج)              نکاح کے بعد بیوی سے ملاقات کیے بغیر شوہر کا انتقال ہوجائے۔

(د)                نکاح کے بعد شوہر سےملاقات کے بغیر بیوی وفات پاجائے۔

اوپر کے سوال میں دوسری صورت مذکورہے۔ فقہ حنفی میں خلوت کی دوقسمیں کی گئی ہیں - خلوت فاسدہ اور خلوت صحیحہ۔ خلوت فاسدہ وہ ہے جس میں بیوی سے مباشرت میں کوئی حسی وطبعی یا شرعی مانع موجود ہو او رخلوت صحیحہ وہ ہے جس میں اس طرح کا کوئی مانع موجود نہ ہو۔ حسی وطبعی اور شرعی موانع کی متعدد مثالیں فقہا نے پیش کی ہیں۔ یہاں ان سب کو پیش کرکے اس پر تفصیلی گفتگو کی ضرورت نہیں۔ مثال کے طورپر ایک حسی مانع یہ ہو سکتا ہے کہ شوہر یا بیوی یا دونوں تیز بخار میں مبتلا ہوں تو خلوت کے باوجود مباشرت سے حسی مانع موجود ہوگا اور یہ خلوت، خلوت فاسدہ ہوگی۔ فرض کیجیے کہ اس کے بعد شوہر، بیوی کو طلاق دے دے تووہ پورے مہر کی مستحق نہ ہوگی بلکہ اس کو آدھا مہر ملے گا۔ اسی طرح مثال کے طورپر شرعی مانع یہ ہے کہ بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو، یا شوہر حالت احرام میں ہو۔ اس طرح کے موانع سے جو خلوت خالی ہوتی ہے وہی خلوت صحیحہ ہے۔ سوال میں جو تفصیل ہے اس سے معلوم ہواکہ خاتون کی اپنے شوہر سے خلوت، خلوت صحیحہ تھی۔ اس لیے اگر طلاق یا تفریق ہوئی تو وہ پورے مہر کی مستحق ہوں گی۔ نامردی کو خلوت صحیحہ میں حارج نہیں تسلیم کیا گیا ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ اگر اور کوئی مانع موجود نہ ہو تو خلوت صحیحہ ہوگی۔

وخلوۃ العنین والخصی خلوۃ صحیحۃ کذا فی الذخیرۃ

(الفتاویٰ الہندیہ ج ۱ص۳۰۵)

’’عنین (نامرد) اور خصی (وہ مرد جس کے خصیے سے بیضے نکال لیے گئے ہوں یا کچل دیے گئے ہوں ) کی خلوت، خلوت صحیحہ ہوگی۔‘‘

عنین وغیرہ کے مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ شامی نے لکھا ہے

ولھا کمال المھروعلیھا العدۃ لوجودالخلوۃ الصحیحۃ۔     (شامی ج۲ ص ۹۲۱)

’’بحرالرائق میں ہے کہ  اس عورت کو پور امہر ملے گا اور اس پر عدت واجب ہے، اس لیےکہ خلوت صحیحہ ہوچکی ہے۔‘‘

کمال مہر اور عدت کے وجوب کے لیے خلوت کو وطی کامقام قرار دینے کا فیصلہ بعد کے فقہا کا نہیں بلکہ خلفاء راشدین ؓ کا ہے۔ المغنی میں ہے

’’امام احمدؒ اور اثرمؒ دونوں نے اپنی سندوں سے زرارہ بن اوفیؓ سے روایت کی ہےکہ خلفاء راشدین مہدیین نے فیصلہ کیا ہے کہ جس نے دروازہ بند کیا اور پردہ لٹکایا تو مہرواجب ہوگیا، اور عدت واجب ہوگئی۔ یہی بات احنف نے بھی حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ سے روایت کی ہے۔ سعید بن المسیب اور زید بن ثابت سے مروی ہے کہ عورت پرعدت واجب ہے اور وہ کامل مہر کی مستحق ہے۔ ‘‘

(المغنی ج۶ ص ۷۲۴)

اس معلوم ہواکہ فقہ حنفی اور فقہ حنبلی میں خلوت صحیحہ کو جو حکماً وطی قرار دیاگیا ہے وہ خلفاء راشدین کا فیصلہ ہے۔

(۳) عنین (نامرد) کی بیوی پر طلاق یاتفریق کے بعد اگر دونوں کے درمیان خلوت صحیحہ ہوچکی ہو تو عدت واجب ہے۔ یہ مسئلہ جواب ۲ میں اوپر گزرچکا ہے۔ یہاں مزید یہ عرض کرنا ہے کہ جہاں تک عدت کے واجب ہونے کا تعلق ہے تو وہ خلوت فاسدہ سے بھی واجب ہو جاتی ہے۔ خلوت فاسدہ کی تشریح اوپر نمبر (۲) میں کی جاچکی ہے۔ اخیر میں جواب کا حاصل لکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

(۱)      عنین (نامرد) اگر اپنی بیوی کو طلاق نہ دینا چاہے تو اس کو علاج کےلیےایک سال کی مدت دی جائے گی۔

(۲)     اگر شوہر اور بیوی میں خلوت صحیحہ ہوچکی ہوتو بیوی پورے مہر کی مستحق ہوگی۔

(۳)     خلوت صحیحہ ہویا خلوت فاسدہ ہر حال میں عورت پر عدت واجب ہوگی اگر شوہر نے طلاق دے دی ہویا دونوں کے درمیان نکاح فسخ کردیاگیاہو۔             (اپریل۱۹۸۶ء ج ۴ ش۴)