جواب
اپنے پیشے کے متعلق آپ نے جو راے قائم کی ہے وہ سو فی صدی صحیح ہے اور آپ کی سلامتِ طبع پردلالت کرتی ہے۔آپ جیسے سلیم الطبع لوگوں کے لیے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ ایک کافرانہ نظام جب کلی طور سے کسی سرزمین پر چھا چکا ہوتا ہے تو اس کے ماتحت رہتے ہوئے کسی شخص کا خالص حلال رزق حاصل کرنا اور مطابق شرع زندگی بسر کرنا قریب قریب ناممکن ہے۔ سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ زیادہ حرام سے بچ کر کم حرام اور ناگزیر حرام کو برداشت کیا جائے اور بغاوت سے بچ کر ایسی معصیت کو مجبوراً گوارا کیا جائے جس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ وکالت کوآپ خود سمجھ چکے ہیں کہ یہ قانونِ الٰہی کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔اس کے مقابلے میں اگر کسی دوسرے پیشے میں کچھ حرام کی آمیزش ہو بھی تو بہرحال وہ بغاوت سے تو کم درجے ہی کا گناہ ہے۔ تجارت، زراعت، صنعت وحرفت، مزدوری، پرائیویٹ فرموں کی ملازمتیں اور اسی قسم کے دوسرے پیشوں میں ایسی صورتیں بہم پہنچ سکتی ہیں جن کے اندر کم سے کم ناگزیر معصیت کی حد پرآدمی قائم رہ سکتا ہے اور وہ کم ازکم اس درجے میں تو حرام نہیں ہیں جس درجے کی یہ وکیلانہ بغاوت حرام ہے۔({ FR 1438 }) (ترجمان القرآن ، جنوری، فروری۱۹۴۴ء)