جواب
سورئہ الانعام کے علاوہ چار چیزوں کی حرمت کا ذکر سورئہ المائدہ، سورئہ النحل اور سورئہ البقرہ میں بھی آیا ہے۔ مگر ان تینوں مقامات پر ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جس سے یہ خیال کیا جا سکتا ہو کہ ان چیزوں کے سوا اور کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ یہ بات صرف سورئہ الانعام میں کہی گئی ہے کہ وحی کے ذریعے سے جن چیزوں کی حرمت کا حکم نبی ﷺ پر نازل ہوا ہے ان میں ان چار چیزوں کے سوا اور کسی چیز کا ذکر نہیں ہے۔ اسی لیے میں نے عرض کیا تھا کہ اس آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر غور کیجیے۔ سیاق و سباق بتا رہا ہے کہ یہاں دراصل ان چیزوں کے حرام ہونے کی نفی مقصود ہے جنھیں اہل عرب نے زمانہ جاہلیت میں حرام کر رکھا تھا اور یہ بتانا مقصود ہے کہ حرام وہ چیز نہیں بلکہ یہ ہیں ۔
مُحصَنہ کی تشریح
سورئہ النساء آیت:۲۵کی طرف میں نے آپ کو توجہ دلائی تھی اس کے الفاظ پرآ پ دوبارہ غور فرمائیں ۔ اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اتنی استطاعت نہ رکھتا ہو کہ ’’مومن محصنات‘‘ سے نکاح کرسکے تو وہ تمھاری مومن لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلے۔ اس کے بعد اسی آیت میں فرمایا گیا کہ یہ لونڈیاں جب کسی کے نکاح میں آکر محصَنہ بن جائیں اور پھر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کو اس سزا کی نصف سزا دی جائے جو محصَنات کے لیے ہے۔ اس آیت میں دو جگہ لفظ محصَنات استعمال ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ دونوں جگہ یہ لفظ ایک ہی معنی میں لیا جا سکتا ہے۔ اب کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ آیت کے پہلے فقرے میں محصَنات سے مراد شادی شدہ عورتیں ہیں ؟ یعنی کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص شادی شدہ مومن عورتوں سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ مومن لونڈی سے نکاح کرے؟ اگر اس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا تو ظاہر ہے کہ اس فقرے میں محصَنات سے مراد آزاد خاندان کی غیر شادی شدہ عورتیں ہی ہوسکتی ہیں اور جب ایسی عورتوں کے مقابلے میں مومن لونڈیوں کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ جس معنی میں آزاد خاندان کی غیر شادی شدہ لڑکی محصنہ ہوتی ہے اسی معنی میں غیر شادی شدہ لونڈی محصنہ نہیں ہوتی۔ پھر جب یہ فرمایا گیا کہ شادی شدہ ہو جانے کے بعد جب ایک لونڈی محصنہ بن جائے اور پھر بدکاری کی مرتکب ہو تو اس کی سزا اس سزا کی نصف ہے جو محصنات کے لیے مقرر ہے، تو اس دوسرے فقرے میں محصنات کی سزا سے مراد وہی سزا ہوسکتی ہے جو غیر شادی شدہ آزاد خاندانی لڑکی کے مرتکب زنا ہونے کے لیے ہے۔ یہاں آپ اس لفظ کو شادی شدہ آزاد عورت کے معنی میں نہیں لے سکتے، کیونکہ ایک ہی آیت میں ایک ہی لفظ کو دو مختلف معنوں میں لینا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔
باقی رہا حضرت علیؓ کے قول اور فعل سے آپ کا استدلال، تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس معاملہ میں حضرت علیؓ نے جو راے قائم فرمائی تھی اس میں وہ صحابہ کرام کے درمیان منفرد تھے۔ خود نبی ﷺ نے زانی محصن کو کبھی رجم کرانے سے پہلے کوڑے نہیں لگوائے۔ اسی طرح باقی تین خلفاے راشدین کے زمانے میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رجم سے پہلے کوڑے لگواے گئے ہوں ۔ دوسرے کسی صحابی کا قول بھی اس کی تائید میں مجھے نہیں ملا اورجمہور فقہا نے بھی حضرت علیؓ کے اس اجتہاد کو قبول نہیں کیا۔ (ترجمان القرآن، جنوری۱۹۷۱ء)