اکتوبر۱۹۶۸ء کے شمارے میں رسائل ومسائل کے تحت ’چند زراعتی مسائل ‘ کے عنوان سے آپ نے چند سوالا ت کے جوابات دیے ہیں۔ ان میں سوال نمبر ۵یہ تھا
’’ایک زمین دار اپنی کھیتی باڑی کے لیے ایک نوکر اس شرط پر رکھتا ہے کہ اگر تم سال بھر کے لیے پانچ سوروپیہ بطور قرض ہم سے لیتے ہو تو ہم خدمت کی مزدوری چارسو روپیہ دیں گے اور اگرقرض نہیں لیتے ہوتوہم تمہیں مزدوری پانچ سوروپے دیں گے۔ چوں کہ اس شخص کو روپیوں کی ضرورت ہے اس لیے وہ ایک سوکم معاوضے پرخدمت قبول کرلیتا ہے۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟‘‘
’’ایک زمین دارغلے کے دام دوطرح کے رکھتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی نقد لے توپچیس روپے من اور ادھارلے تو تیس روپے من، کیا اس طرح کی بیع جائز ہے؟‘‘
اس سوال کا آپ نے یہ جواب دیا ہے کہ ’’اس طرح کی بیع جائز ہے۔ اگر ان دونوں صورتوں میں کوئی صورت طے کرکے خریدوفروخت ہو۔‘‘ اب مجھے شبہ یہ ہوا ہے کہ ادھار لینے کی شکل میں بھی تو جو قیمت خریدار کے ذمے باقی ہے وہ قرض ہی ہے اور نقد قیمت کے مقابلے میں پانچ روپے زائد ہے تو پھر یہ جائز کس طرح ہوا؟ اس شبہ کو دور کیجیے۔
جواب
ادھار لینے کی شکل میں خریدار کے ذمے جو قیمت باقی ہے وہ قرض نہیں ہے بلکہ دین ہے۔ قرض کے مقابلے میں دین کا لفظ فقہ کی اصطلاح میں زیادہ عام ہے، یعنی ہرقرض پردین کا لفظ بھی صادق آتا ہے لیکن ہر دین پرقرض کا لفظ صادق نہیں آتا۔ دین ہر اس مال کو کہتےہیں جو کسی کے ذمے واجب الادا ہو، خواہ وہ کسی کی خریدی ہوئی چیز کے دام کے طورپر، یاکسی کی چیز برباد کردینے کی پاداش میں تاوان کے طورپر یا کسی مزدورکی اجرت کے طورپر ہویا بیوی کے مہر کے طورپر یا دست گرداں لی ہوئی رقم کے طورپر۔ اور قرض یہ ہے کہ آپ کسی کو کوئی ایسی چیز جس کا مثل واپس کرنا ممکن ہو اس معاہدے کےساتھ دیں کہ وہ شخص آپ کو اس کا مثل ادا کردے گا۔مثلاً آپ نے کسی کو پانچ روپے یا پانچ سیر گیہوں اس معاہدے کے ساتھ دیے کہ وہ پانچ روپے یا پانچ سیر گیہوں آپ کو واپس کردے گا۔ اسی مخصوص معاملے کو قرض کہتے ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ تیس روپے من کے حساب سے جو غلہ خریدا گیا ہو اور اس کے دام خریدار کے ذمے باقی ہوں وہ قرض نہیں ہیں۔ کیوں کہ قرض میں جو چیزلی جاتی ہے اس کے مثل وہی چیز واپس کی جاتی ہے۔ قرض خریدوفروخت کا کوئی معاملہ نہیں ہے اور نہ اس میں کوئی چیز بیچی اور خریدی جاتی ہے۔ بیع کے احکام اور قرض کے احکام الگ الگ ہیں۔ بیع اور قرض میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ بائع اپنی چیز پرجو نفع لیتا ہے وہ اس کے لیے حلال وطیب ہے اور قرض دینے والا اپنے قرض پر نفع لے تو وہ اس کے لیے حرام اور خبیث ہے۔
سوال ۵ کے مسئلے میں عدم جواز کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں اجارے اورقرض کے معاملے کو مخلوط کردیاگیا ہے اور دوسری یہ کہ مزدور کو سوروپے کم معاوضہ دے کر ان پانچ سو روپیوں کا سود حاصل کیا گیا ہے جو مزدور کو بطور قرض دیے گئے تھے اور سوال ۶(الف) کے جائز ہونےکی وجہ یہ ہے کہ شریعت نے بائع کو اس کا پابند نہیں کیا ہے کہ وہ نقد اور ادھار دونوں صورتوں میں اپنے مال کے دام یکساں وصول کرے۔ (دسمبر ۱۹۶۸ء،ج۴۱،ش۶)