چہرے کاپردہ

 ایک صاحب کا یہ خیال ہے کہ چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ قرآن مجید میں دو مقامات پر پردے کا ذکر آیا ہے جس میں چہرا کھلا نہ رکھنے کی تاکید نہیں ہے۔ موصوف نے ’پردہ‘ مصنفہ مولانا مودودی پڑھ کر کہا کہ انھوں نے اپنی ذاتی رائے شامل کردی ہے۔ براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب

 اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ چہرے کا پردہ نہیں ہے تووہ یہ خیال رکھے لیکن اپنے خیال کی تائید کے طورپر قرآن کانام لینا میرے نزدیک صحیح نہیں ہے، کیوں کہ قرآن میں تو مسلمان عورتوں کو گھروں کے اندر رہنے کا حکم دیاگیا ہے اوراس کی تاکید کی گئی ہے، جہاں صرف ان کےچہرے نہیں بلکہ ان کی پوری شخصیت اجنبی مردوں کی نگاہوں سےپوشیدہ رہتی ہے اور رہے گی۔

(الف) سورۃ الاحزاب کی آیت (۵۹)میں ازواج مطہرات کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ وہ گھروں کے اندر رہیں اور یہ حکم ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ عورتوں کا دائرہ کارگھروں کے اندر ہے۔ انھیں بلا ضرورت گھروں سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔

(ب) اسی سورہ کی آیت ۵۳ میں مسلمان مردوں کو حکم دیاگیا ہے کہ اگر انھیں ازواج مطہرات سے کوئی چیز طلب کرنی ہو تو پردے کے باہر سے مانگیں۔ یہ حکم بھی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں ہے، خواہ وہ پردہ دروازے کے کواڑہوں یا دروازے پرکوئی پردہ پڑا ہویا مرد اور عورت کے سامنے کوئی پردہ کھینچا ہواہو۔ اس آیت سے بھی معلوم ہواکہ مسلمان عورت کی پوری شخصیت کو پردے کے اندر رکھنا مقصود ہے۔

(ج) مسلمان عورتوں کو ضرورتاً گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن جب وہ باہر نکلیں تو اجنبی مردوں کے سامنے انھیں کس طرح جانا چاہیے اس کا حکم اسی سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۹ میں ہے

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ۝۰ۭ

مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بیان القرآن میں اس کا ترجمہ کیاہے

’’اے پیغمبر! اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحب زادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے کہہ دیجیے کہ (سرسے) نیچی کرلیاکریں اپنے (چہرے کے) اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں، اس سے جلد ی پہچان ہوجایا کرے گی تو آزارنہ دی جایا کریں گی۔‘‘

حضرت شاہ عبدالقادرؒ موضح القرآن میں اس کی تفسیرکرتے ہوئے لکھتے ہیں 

’’یعنی پہچان پڑیں کہ لونڈی نہیں بی بی ہے، بدذات نہیں، نیک بخت ہے، توبدنیت لوگ اس سے نہ الجھیں، گھونگھٹ اس کا نشان رکھ دیا۔‘‘

مولانا فتح محمد جالندھری مرحوم نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے

’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں اوربیٹیوں اورمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو ) اپنی (مونہوں )پرچادرلٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیاکریں۔ یہ امران کے لیے موجبِ شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذانہ دے گا۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےاس آیت کی جو تفسیر منقول ہے وہ یہ ہے 

قال ابن عباس وابو عبیدۃ امرنساء المومنین ان یغطین رؤسھن ووجوھن بالجلابیب الا عینا واحدۃ۔                                                  (تفسیر مظہری)

’’ابن عباس وابوعبیدہ نے کہا کہ مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیاگیا ہے کہ وہ اپنے سراور اپنے چہرے چادروں سے ڈھانک لیاکریں صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ ‘‘

مولانا اشرف علی تھانویؒ نےبیان القرآن میں لکھا ہے

’’صاحب درمنثورنے محمد بن سیرین سے نقل کیا ہے کہ میں نے عبیدہ سلمانی ؒ سے اس آیت کے معنی پوچھے توانھوں نے چادر میں سرکے ساتھ چہرا بھی چھپالیا اور ایک آنکھ کھلی رہنے دی۔‘‘

(بیان القرآن، تفسیر سورۃ النور)

عبیدہ سلمانی ایک بڑے درجےکی تابعی تھے۔ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ کی تفسیر جلالین میں یہ ہے

ای یرخین بعضھا علی الوجوہ اذا خرجن لحاجتھن الا عینا واحدۃ۔

’’یعنی جب وہ اپنی ضرورت کے لیے باہر نکلیں توچادروں کے بعض حصوں کو چہروں پرلٹکالیں، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ ‘‘

قدیم مفسرین میں شاید ہی کوئی ایسا صاحب تصنیف مفسر ہو جس نے اس آیت کی یہ تفسیر نہ کی ہو۔ اگر شان نزول کو بھی سامنے رکھ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ آیت باہر نکلنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کر باہر نکلنے کی تعلیم کےلیے نازل ہوئی تھی۔شان نزول یہ ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سےپہلے آزاد عورتیں اورلونڈیاں دونوں ہی ایک لباس میں باہر نکلتی تھیں، ان کے چہرے کھلے ہوئے ہوتے تھے۔ مدینہ منورہ میں منافقین کا گروہ رات کو عورتوں کی تاک میں رہتا تھا اور انھیں چھیڑتا تھا۔ جب آزاد اورشریف عورتیں اپنے شوہروں سے اس کی شکایت کرتیں اور منافقین سے باز پرس کی جاتی تو وہ کہہ دیتے کہ ہم نےپہچانا نہیں، ہم تو لونڈیوں سے کچھ باتیں کرنا چاہتےتھے۔ اس صورت حال پرروک لگانے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی اور آزاد اور شریف عورتوں کو یہ حکم دیاگیا کہ اگر وہ ضرورتاً باہر نکلیں (اس وقت بیعت الخلا گھروں میں بنے ہوئے نہیں تھے اور عورتوں کو رفع حاجت کے لیے گھروں سے باہر جانا پڑتا تھا) تو دوپٹے کے اوپر چادر اوڑھ کر اور اس کےبعض حصےسے گھونگھٹ نکال کر باہر جائیں تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور انھیں ایذانہ دی جائے۔ زیر بحث آیت میں ذٰلِکَ اَدْنٰی اَنْ یُّعْرَفْنَ کا ٹکڑا صاف طورپر اس صورت حال کی طرف اشارہ کررہاہے۔ لونڈیوں پر یہ پابندی عائد کردی گئی تھی کہ وہ چہرے چھپا کر باہر نہ نکلیں تاکہ آزاد عورتوں اور لونڈیوں میں امتیاز ہوسکے۔ ایک بار حضرت عمرؓنے ایک عورت کو جلباب اور مقنع کے ساتھ دیکھا، چہرا چھپاہوا تھا اس لیے آپ نے اس کو نہیں پہچانا اورلوگوں سے پوچھا کہ یہ کون عورت ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ انھیں کے خاندان کی لونڈی ہے۔ انھوں نے اپنا درہ اٹھاکر اس سے کہا کہ چادر اتاردے تاکہ لوگ پہچان سکیں کہ وہ لونڈی ہے۔ یہ واقعہ امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔                                             (فروری ۱۹۷۷ءج۵۸ش۲)