جواب
آپ نے جو حالات لکھے ہیں ،انھیں پڑھ کر انتہائی افسوس ہوا۔ پاکستان کی فوج اور فضائیہ میں آج بھی بکثرت ایسے لوگ موجود ہیں جو تقسیم سے قبل متحدہ ہندستان کی فوج یا فضائیہ میں سکھوں کے ساتھ،بلکہ بعض تو ان کے ماتحت کام کرچکے ہیں ۔ان کو خوب معلوم ہے کہ رعب، خوب صورتی ،چستی اور دوسرے جن جن پُر فریب الفاظ کو استعمال کرکے آج یہ لوگ ڈاڑھی کو فوج اور فضائیہ میں حرام کیے ہوئے ہیں ، ان میں سے کوئی حیلہ اور بہانہ نہ تو سکھوں سے ڈاڑھی منڈوا سکا اور نہ کسی بڑے سے بڑے عہدے تک ان کے پہنچنے میں مانع ہو سکا۔ آج بھی متحدہ ہندستان کی فوج اور بحریہ اور فضائیہ میں سکھ بڑے سے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور کسی کی یہ جرأت نہیں ہے کہ ان سے یہ کہہ سکے کہ تمھیں ملازمت کرنی ہے تو ڈاڑھی منڈوا کر آئو،یا اگر تم ڈاڑھی رکھو گے تو تمھیں ملازمت میں نہ لیا جائے گا۔ ابھی تھوڑی ہی مدت پہلے ہمارے ہاں کی ایک فوجی تقریب میں حصہ لینے کے لیے ہندستان سے ایک سکھ لیفٹیننٹ جنرل آیا تھا جس کے چہرے پر بالشت بھر کی ڈاڑھی لٹک رہی تھی اور اس کی تصویر ہمارے ملک کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ افسوس کہ اس کو دیکھ کر بھی ہمارے کالے صاحب بہادروں کو شرم نہ آئی اور انھوں نے نہ سوچا کہ ڈاڑھی سے آدمی فوجی ملازمت کا اہل نہیں ہوتا تو یہ سکھ کیسے لیفٹیننٹ جنرل ہوگیا۔
اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے مسلمان افسر صاحبان ڈاڑھی والوں کو ملازمت میں نہ لینے، یا ڈاڑھی منڈوانے کو ملازمت کے لیے شرط قرار دینے کے لیے جتنے بہانے بناتے ہیں ، وہ سب بالکل لغو اور بے ہودہ ہیں ۔ اصل بات یہ نہیں ہے کہ ڈاڑھی رکھنے سے فوجی ملازمت کے لیے آدمی کی اہلیت یا موزونیت میں کوئی فرق آجاتا ہے۔بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انگریزکی بندگی نے ان لوگوں کو سکھوں کی بہ نسبت بہت زیادہ گھٹیا درجے کی غلامانہ ذہنیت میں مبتلا کردیا ہے۔سکھوں نے بھی وہی مغربی تعلیم پائی ہے جو انھوں نے پائی ہے اور اسی انگریز کی وہ بھی نوکریاں کرتے رہے ہیں جس کی یہ کرتے رہے ہیں ۔کسی میدان میں وہ ان سے پیچھے نہیں رہے۔ لیکن وہ آج تک بھی مغرب زدگی کی اس ذلیل انتہا کو نہیں پہنچے کہ گرونانک اور گرو گوبند سنگھ اور اپنے مذہب کے دوسرے اکابر کی پیروی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں اور اسے نالائقی کا نشان سمجھیں ۔ یہ شرف صرف ہمارے فرنگیّت زدہ حضرات ہی کو نصیب ہوا کہ انھوں نے جب انگریز کی بندگی اختیار کی تو اپنا سب کچھ لا کر خداوند انگریز کے قدموں میں ڈال دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ یہ لوگ انگریز کی نوکری حاصل کرنے کے لیے بخوشی ڈاڑھیاں مونڈنے پر راضی ہو گئے، بلکہ رفتہ رفتہ یہ اتنے بگڑے کہ انھوں نے خود ڈاڑھی کو نالائقی کا نشان تسلیم کرلیا۔ حالاں کہ ڈاڑھی جس طرح سکھوں کے اکابر مذہب کی سنت تھی،اسی طرح وہ مسلمانوں کے اکابر دین کی سنت بھی تھی، اور جس طرح سکھوں کو ان کے پیشوائے دین نے اس کے رکھنے کاحکم دیا تھا،اسی طرح مسلمانوں کو بھی نبی ؐنے اس کے رکھنے کی تاکید اور مونڈنے کی ممانعت فرمائی تھی۔ اس صورتِ حال کوجب میں دیکھتا ہوں تو مجھے بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس ہوتا ہے کہ مسلمان خود اپنے ہی ہم سر اور ہم عصر غیر مسلموں کی بہ نسبت سیرت وکردار کے اعتبار سے کتنے فروتر ثابت ہوئے ہیں ۔
میرا مشورہ نہ صرف آپ کو، بلکہ تمام ان نوجوانوں کو جن کے اندر دینی غیرت وحمیت موجود ہے، یہ ہے کہ وہ ان حالات میں پست ہمت نہ ہوں اور کوئی کمزوری نہ دکھائیں ۔ ان کو چاہیے کہ ہر مقابلے کے امتحان میں شریک ہوکر اپنی قابلیت واہلیت ثابت کردیں اور اس کے بعد جب صرف ڈاڑھی رکھنے کے سبب سے ان کو ملازمت میں لینے سے انکار کیا جائے تو ملازمت سے محرومی کو قبول کرلیں اور ڈاڑھی ہرگز نہ مونڈیں ۔ اس طرح اگر غیرت مند مسلمان نوجوان پے درپے عمل کرتے رہیں گے تو ان شاء اﷲ یہ بات بالکل ثابت ہوجائے گی کہ ڈاڑھی رکھنے والے نااہل نہیں ہیں بلکہ ان پر ملازمتوں کے دروازے بند کرنے والے نام نہاد روشن خیال افسر انتہائی تنگ نظر ’’ملا‘‘ ہیں اور وہ اپنی اسی تنگ نظری کے باعث اپنے ملک کی ملازمتوں کو مضبوط سیرت وکردار رکھنے والے نوجوانوں سے محروم کررہے ہیں ۔ ہماری حکومت اگر یہی پسند کرتی ہے کہ صرف پیٹ پر ضمیر وایمان کی قربانی دینے والے ہی ملازمتوں میں رہ جائیں اور تمام ایمان دار و بلند کردار لوگوں پر ملازمتوں کے دروازے بند رہیں تو وہ جب تک چاہے اپنی اس تباہ کن پالیسی پر چلتی رہے۔ آخرکاراس کو معلوم ہوجائے گا کہ اس نے اس حماقت سے اپنا اور اپنے ملک کا کس قدر نقصان کیا ہے۔ (ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۶۳ء)