ڈاڑھی کی اہمیت

میں نے ڈاڑھی رکھ لی ہے۔میرے کچھ ایسے رشتہ دار جوعلم دین سے کافی واقف ہیں ،وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ڈاڑھی فرض نہیں ہے،قرآن میں اس کے متعلق کوئی حکم نہیں ملتا،ڈاڑھی نہ رکھی جائے تو کون سا گناہ کبیرہ ہے۔یہ رسولؐ کی سستی محبت ہے۔آپ فرمایے کہ میں انھیں کیا جواب دوں ؟
جواب

ڈاڑھی کے متعلق آپ نے جو سوال مجھ سے کیا ہے،اس پر ایک انگریز نو مسلم کا واقعہ یادآگیا،جس نے اسلام کا اچھا مطالعہ کرنے کے بعد اس کو قبول کیا تھا،قبول اسلام کے بعد ہی اس نے ڈاڑھی مونڈنی چھوڑ دی۔بعض لوگ جو اسی طرح کے ’’علم دین سے کافی واقف‘‘تھے جیسے آپ کے یہ عزیز ہیں ،کہنے لگے کہ ڈاڑھی رکھنا اسلام میں کچھ ایسا ضروری کام تو نہیں ہے،پھر کیوں خواہ مخوہ آپ نے ڈاڑھی مونڈنی چھوڑ دی؟ اس نے جواب دیا: ’’میں ضروری اورغیر ضروری کی تقسیم نہیں جانتا، میں بس یہ جانتا ہوں کہ پیغمبر ؐ نے اس کا حکم دیا ہے، جب میں نے پیغمبرﷺ کی اطاعت قبول کرلی تو حکم بجا لانا میرا فرض ہے۔ کسی ماتحت کا یہ کام نہیں ہے کہ افسر بالا (higher authority) کے احکام میں سے کسی کو ضروری اور کسی کو غیر ضروری قرار دے۔‘‘ بس یہی واقعہ اپنے ان عزیزوں کو سنا دیجیے، اور ان سے یہ بھی پوچھیے کہ یہ تو خیر’’ رسولؐ کی سستی محبت ہے‘‘، جناب نے اگر کسی مہنگی محبت کا ثبوت دیا ہو تو ارشاد فرمایے۔اگر ایک نوکر آقا کے آسان احکام کی تعمیل سے بھی گریز کرتا ہے تو وہ امور مہمہ کو کیسے سرانجام دے سکے گا۔ہم سستی اور مہنگی محبت کا فرق نہیں جانتے۔ ہمیں تو پوری طرح اس راستے پر چلنا ہے جس پر نبیؐ چلے ہیں اور ان احکام کی تعمیل کرنی ہے جو آپؐ نے دیے ہیں ۔
اس سلسلے میں ایک بات اور سمجھ لیجیے۔موجودہ زمانے میں ڈاڑھی رکھنا کسی ایسے شخص کے لیے جو فرنگیت زدہ طبقوں سے تعلق رکھتا ہو،محض ایک حکمِ نبویؐ کی تعمیل ہی نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا جہاد بھی ہے، اور عجب نہیں کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ہجرت کااجر بھی مل جائے۔سب سے پہلے تو اس کو خود اپنے اس مذاق اور رنگ طبیعت کے خلاف بہت دنوں تک جدوجہد کرنی پڑتی ہے جو برسوں کی تعلیم وتربیت اورماحولی اثرات کے تحت اس کے اندر راسخ ہوچکا تھا۔ پھر جب وہ اس پرانے ذوق کی بیخ کنی کرنے اور اس کی جگہ اسلامی ذوق اپنے اندر پرورش کرنے میں اس حد تک کام یاب ہوجاتا ہے کہ اس کے چہرے پر ڈاڑھی اُگ سکے تو باہر ایک دوسری کش مکش شروع ہوجاتی ہے۔اس کا ماحول اس سے لڑنے لگتا ہے کہ یہ کیسا انقلاب تیرے اندر رونما ہورہا ہے۔اس کے عزیز،اقارب، دوست،آشنا سب اسے چھیڑنے لگتے ہیں ۔ اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے،اس پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں ۔شادی کی مارکیٹ میں اس کی قیمت گر جاتی ہے۔ ہر طرف سے تقاضے شروع ہوجاتے ہیں کہ اِ س دیوار کو ڈھائو جو ہمارے اور تمھارے درمیان اُٹھ رہی ہے۔ ان پے درپے حملوں کے مقابلے میں کوئی ایسا شخص ٹھیر نہیں سکتا جس میں کیرکٹر کی مضبوطی نہ ہو، یا جس میں اندرونی تغیر کے مکمل ہونے سے پہلے کسی وقتی جذبے کے اثر یا کسی خارجی دبائو سے بیرونی تغیر شروع ہوگیا ہو۔ ایسا شخص تھوڑا یا بہت مقابلہ کرنے کے بعد آخرکار اپنے ماحول سے شکست کھاجاتا ہے اور بہروپیوں کی طرح پھر وہی وضع اختیا رکرلیتا ہے جسے چھوڑنے کی اس نے نمائش کی تھی۔مگر جو مضبوط کیرکٹر رکھتا ہو اور جس کا باطنی انقلاب پائدار بنیادوں پر اُٹھا ہو، وہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ اس مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے اور اس استقامت کے نتیجے میں دو زبردست فائدے حاصل ہوتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کے اندر موجودہ کافرانہ ماحول کے خلاف دوسرے میدانوں میں بھی کام یاب لڑائی لڑنے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔دوسرے یہ کہ جس مضبوط سیرت کا اس نے ثبوت دیا ہے،اس کا رُعب اس کے ماحول پر طاری ہوجاتا ہے اور اس کی تبلیغ وتلقین میں اتنا وزن پیدا ہوجاتا ہے کہ اپنی سوسائٹی کے دوسرے اصلاح پذیر لوگوں پر بھی وہ اثر ڈال سکے۔
اکثر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ اس زمانے میں مُنڈی ہوئی ڈاڑھی محض ایک وضع نہیں ہے بلکہ ایک کلچر اور ایک مذہب ِ زندگی کا نمایاں ترین شعار ہے۔اس شعار کو چھوڑنا دراصل اس کلچر اوراس مذہب ِ زندگی کو چھوڑنے کا اعلان ہے جس کا یہ شعار ہے۔ اور ڈاڑھی رکھنا کم از کم موجودہ حالات میں تو عملاً اسلام کو ایک کلچر اور ایک مذہب ِ زندگی کی حیثیت سے اختیار کرنے کا ہم معنی ہے۔ یہ ترک واختیار اس وقت تک حقیقی اور پائدار نہیں ہوسکتا جب تک فی الواقع آدمی کے نفس میں مغربی کلچر اور مذہب زندگی کا اچھی طرح قلع قمع نہ ہوجائے اوراس کی جگہ اسلامی کلچر اور مذہب ِ زندگی کی جڑیں اچھی خاصی مضبوط نہ ہوجائیں ۔لہٰذا جو لوگ محض سطحی طور پر اخلاقی دبائو ڈال کر جدید طرز کے نوجوانوں سے ڈاڑھی رکھوانے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اندرونی انقلاب چاہے ہو یا نہ ہو، مگر بیرونی انقلاب سے ضابطے کی خانہ پری فوراً کردی جائے، وہ بے چارے حقائق سے اپنی ناواقفیت کا ثبوت دیتے ہیں ۔ مگر جہاں یہ تغیر فی الحقیقت ایک گہرے اندرونی انقلاب کا نتیجہ ہو اور اس کے متوازی متقیانہ سیرت کے دوسرے مظاہر بھی ساتھ ساتھ نمایاں ہورہے ہوں اور ماحو ل کے غیر اسلامی اثرات سے لڑنے میں بھی پامردی کا ثبوت دیا جارہا ہو، ایسی جگہ اس انقلاب کو محض ایک معمولی چیز قرار دینا اور اسے رسولؐ کی سستی محبت سے تعبیر کرنا صرف انھی لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جو بے چارے رخسارو ذقن کے بالوں سے زیادہ کچھ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
(ترجمان القرآن ، ستمبر،اکتوبر،۱۹۴۳ء)