ڈاڑھی کی مقدار کا مسئلہ

ڈاڑھی کی مقدار کے عدم تعین پر’’ترجمان‘‘میں جو کچھ لکھا گیا ہے،اس سے مجھے تشویش ہے،کیوں کہ بڑے بڑے علما کا متفقہ فتویٰ اس پر موجود ہے کہ ڈاڑھی ایک مشت بھر لمبی ہونی چاہیے اور اس سے کم ڈاڑھی رکھنے والا فاسق ہے۔آپ آخر کن دلائل کی بِنا پر اس اجماعی فتوے کو ردکرتے ہیں ؟
جواب

یہ تو انھی علما سے پوچھنا چاہیے کہ ان کے پاس مقدار کے تعین کے لیے کیا دلیل ہے؟ اور خصوصاً ’’فسق‘‘ کی وہ آخر کیا تعریف کرتے ہیں جس کی بِنا پر ان کی تعین کردہ مقدار سے کم ڈاڑھی رکھنے والے پر فاسق کا اطلاق ہوسکتا ہے ؟مجھے سخت افسوس ہے کہ بڑے بڑے علما خود حدودِ شرعیہ کو نہیں سمجھتے اور ایسے فتوے دیتے ہیں جو صریحاًحدودِ شرعیہ سے متجاوز ہیں ۔
ڈاڑھی کے متعلق شارع نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔علما نے جو حد مقرر کرنے کی کوشش کی ہے،وہ بہرحال ایک استنباطی چیز ہے، اور کوئی استنباط کیا ہوا حکم وہ حیثیت حاصل نہیں کرسکتا جو نص کی ہوتی ہے۔کسی شخص کو اگر فاسق کہا جاسکتا ہے تو صرف حکم منصوص کی خلاف ورزی پر کہا جاسکتا ہے۔حکم مستنبط کی خلاف وزری (چاہے استنباط کیسے ہی بڑے علما کا ہو)فسق کی تعریف میں نہیں آتی،ورنہ اسے فسق قرار دینے کے دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ استنباط کرنے والوں کی بھی شریعت میں وہی حیثیت ہے جو خود شارع کی ہے۔ (ترجمان القرآن ،مارچ،جون ۱۹۴۵ء)