ڈاڑھی کی مقدار کی وجہ سے فِرَقی نام پڑجانا

ڈاڑھی کی مقدار کے عدمِ تعین کا جو مسئلہ جماعتِ اسلامی میں پھیل نکلا ہے،اس کے ماتحت بعض رفقا نے اپنی ڈاڑھیاں پہلے سے چھوٹی کرا لی ہیں اور اب ان خشخشی ڈاڑھیوں کے متعلق یہ خدشہ ہے کہ کہیں ’’احمدی ڈاڑھی‘‘ کی طرح ان کا بھی کوئی فِرَقی نام نہ پڑ جائے اور عوام کے لیے یہ چیز فتنہ نہ ثابت ہو۔چوں کہ علما کا متواتر تعامل مُشت بھر ڈاڑھی رکھنے کا ہے،اس وجہ سے میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں بھی اس کا التزام کرنا چاہیے۔
جواب

آپ کا قلب جس چیز پر گواہی دے،آپ کو خود اس پر عمل کرنا چاہیے۔میرے نزدیک کسی کی ڈاڑھی کے چھوٹے یا بڑے ہونے سے کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا۔اصل چیزجو آدمی کے ایمان کی کمی اور بیشی پر دلالت کرتی ہے وہ تو اور ہی ہے۔البتہ مجھے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان کی کمی کو بعض ظاہری چیزوں کی بیشی سے پورا کرنے کی اب تک کوششیں کی جاتی رہی ہیں ،کہیں جماعتِ اسلامی کے بھی کچھ لوگ اسی مرض میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔اگر کسی کی حقیقی جاں نثاری ووفا داری اﷲ تعالیٰ کی را ہ میں ’’طویل‘‘ ہو تو کوئی بڑا نقصان نہ ہوجائے گااگر اس کی ڈاڑھی ’’قصیر‘‘ہو۔ لیکن اگر جاں نثاری ووفاداری ’’قصیر‘‘ ہے تو یقین رکھیے کہ ڈاڑھی کا طول کچھ بھی فائدہ نہ دے گا، بلکہ بعیدنہیں کہ خدا کے ہاں اُس پرفریب کاری اور مکاری کا مقدمہ چل جائے۔
آپ اس کی فکر نہ کیجیے کہ ہمار ی جماعت کے ارکان کے متعلق لوگ کیا راے قائم کریں گے اور ان کے ظاہر سے کیا اثر لیں گے۔ آپ کو اور ہمارے تمام رفقا کو اپنے باطن کی فکر اپنے ظاہر سے بڑھ کر ہونی چاہیے اور اسی طرح اپنے اُن اعمال کی زیادہ فکر کرنی چاہیے جن پر خدا کی میزان میں آدمی کے ہلکے یا بھاری ہونے کا مدار ہے، کیوں کہ اگر ایسے اعمال ہلکے رہ گئے تو بال برابر وزن رکھنے والی چیزوں کی کمی بیشی سے میزانِ الٰہی میں کوئی خاص فرق واقع ہونے کی توقع نہیں ہے۔ ({ FR 2047 })
(ترجمان القرآن ،مارچ،جون ۱۹۴۵ء)