۱- زید بسلسلۂ تجارت اپنا شریکِ کار اپنی بالغ اولاد میں سے کسی ایک کو آدھا یا چوتھائی کا بنا سکتا ہے یا نہیں ؟
۲- اگر تجارت میں شریک بنا دیا ہے تو کیا اولاد مذکور اس متعین حصہ کی مالک ہوسکتی ہے یا نہیں ؟
۳- مذکورہ متعینہ حصہ کو اگر کل یا بعض، والد یا اولاد لے تو حقوق العباد میں گرفتار ہوں گے یا نہیں ؟
۴- گھریلو اخراجات کو جانبین میں سے کوئی ایک برداشت کرے گا یا مشترکہ دولت سے؟
۵- مشترکہ نفع میں سے اگر کوئی چیز خریدی گئی تو جانبین میں سے ہر ایک حق دار ہوگا یا کوئی ایک؟
جواب
آپ کے سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں :
۱- زید اپنی بالغ اولاد کو کاروبار میں شریک کرسکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۲- جو اولاد کاروبار میں جس حد تک شریک ہے وہ اس کی مالک ہوگی۔
۳- جو اولاد جس حصہ کی مالک ہے اسے کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔
۴- ہر شخص اپنے بیوی بچوں کے اخراجات کا ذمہ دار ہے، لہٰذا وہ اسے برداشت کرے گا۔ اولاد اگر صاحب حیثیت ہے تو اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے اخراجات خود برداشت کرے گی۔
۵- مشترکہ نفع سے جو چیز خریدی جائے اس کا ہر حصہ دار اپنے حصہ کے تناسب سے مالک ہوگا۔ شریک اولاد بھی اپنے حصہ کے تناسب سے اس کی مالک ہوگی۔
اس طرح کے معاملات میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ دوسری اولاد کا کوئی نقصان نہ ہو اور اس کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے پائے۔ ورنہ آدمی سخت گناہ گار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔