کرب کا علاج بذریعۂ موت

اگر کسی مریض کے جاں بر ہونے کی قطعاً امید نہ رہی ہو اور شدت مرض کی وجہ سے وہ انتہائی کرب میں مبتلا ہو،یہاں تک کہ نہ غذا اندر جاتی ہو نہ دوا،توکیا ایسے حالات میں کوئی طبیب حاذق اس کو تکلیف سے نجات دینے کے لیے کوئی زہر دے کر اس کی زندگی کی درد ناک گھڑیاں کم کرسکتا ہے؟ اس قسم کی موت وارد کرنے سے کیا اس پر شرعاًقتل کا الزام آئے گا؟ حالاں کہ اس کی نیت بخیر ہے؟
جواب

یقیناً اس پر قتل کا الزام آئے گا۔اس معاملے میں نیت بخیر ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے۔ جس جان کا وہ مالک نہیں ہے اورجس کے خلاف کوئی شرعی حق بھی قائم نہیں ہوا ہے،اس کو اگر اس نے قصداًہلاک کیا ہے تووہ قطعی طور پر قتل عمد کا مجرم ہے۔
طبیب کو اﷲ نے جو علم دیاہے اس کی غرض انسانی جان کی حفاظت کے لیے کوشش کرنا ہے نہ کہ اس کی موت کے لیے۔ جب تک کسی شخص کے اندر زندگی موجود ہو،طبیب کا فرض ہے کہ اسے بچانے کی کوشش کرتا رہے، اور جس حد تک اس کے امکان میں ہو ،اس کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے بھی سعی کرے۔ لیکن یہ بات ایک طبیب کے اخلاقی وشرعی حدود عمل سے بالکل خارج ہے کہ وہ اس امر کا فیصلہ کرے کہ کون آدمی ہلاک کردیے جانے کا مستحق ہے۔ بلکہ یہ بات خود اس مریض کے اپنے حدود اختیار سے بھی باہر ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کرے۔اس لیے اگر مریض کا اپنا مطالبہ بھی ہو تب بھی طبیب کے لیے ایسا کوئی فعل ہرگز جائز نہیں ہے جو اسے ہلاک کرنے کی خاطر ہو۔
علاوہ بریں یہ بھی ایک قطعی غلط مفروضہ ہے کہ کوئی ڈاکٹر کسی مریض کے بارے میں یہ بالکل یقین کے ساتھ جان سکتا ہے کہ وہ ضرور مر جائے گا۔ ایسی مثالیں نادر نہیں ہیں جن میں ایک طبیب نے نہیں بلکہ متعدد طبیبوں نے بالاتفاق راے قائم کی ہے کہ مریض نہیں بچے گا، او رپھر ان کے اندازوں کے بالکل خلاف اس کی جان بچ گئی ہے۔ اس لیے جو ڈاکٹر محض اندازے سے کسی شخص کے جاں بر نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا اور اس کی تکلیف دُور کرنے کے لیے اسے ہلاک کردے گا، وہ دراصل ایک بہت بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے گا۔اپنے علم پر ایسا بے جا اعتماد ایک کافر ڈاکٹر تو کرسکتا ہے مگر یہ ایک مسلمان ڈاکٹر کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن ،دسمبر ۱۹۴۵ء)